Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. UAE Ki Tez Tareen Taraqi Ki Chand Wajuhat

UAE Ki Tez Tareen Taraqi Ki Chand Wajuhat

متحدہ عرب امارات کی تیز ترین ترقی کی چند وجوہات

جس طرح نصف صدی میں متحدہ عرب امارات نے دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اس کی مثال تاریخِ عالم میں ملنا مشکل ہے۔ تقریباََ نصف صدی بعد، جہاں زیادہ تر کھلے بازار اور خیمہ نما مکانات تھے، وہاں فلک بوس عمارتیں اور عمدہ شاہراہیں دکھائی دیتی ہیں۔ جہاں کبھی کھجور کاشت کی جاتی تھی، موتیوں کو سمندر سے تلاش کیا جاتا تھا اور زندگی گزارنے کے لیے اونٹوں کی نسلیں پالی جاتی تھیں، وہاں اب جزیرہ نما عرب میں آرٹ کا سب سے بڑا عجائب گھر، پیرس اور نیویارک یونیورسٹیزیز اور کی برانچز کھل چکی ہیں۔

آج وہاں دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ پہ، سیون سٹار ہوٹل، دنیا کی مہنگی ترین پینٹنگ (لیونارڈو ڈاونچی کی سیویئر آف دی ورلڈ والی پینٹنگ) اور دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹرز موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے خلاء میں اپنے مشن بھیجے ہیں، متحدہ عرب امارات وہ پہلا ملک ہے جہاں دفاتر میں ساڑھے چار دن کام ہوتا ہے۔

عرب ممالک کے درمیان اپنے تیل کے کنوں کی بدولت جدت اور ٹیکنالوجی کی مضبوط ہم آہنگی والا ملک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) مشرق اور مغرب کے درمیان ایک گیٹ وے یعنی دروازہ بن گیا ہے۔ ایک بڑی عالمی طاقت نصف صدی سے بھی کم عرصے میں اس علاقے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کے پس پشت مشرق وسطیٰ کے ماہرین جن کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، وہ شیخ خلیفہ بن زاید بن سلطان النہیان ہیں، جو گذشتہ ماہ وفات پا گئے تھے۔

دنیا کے بڑے امراء سمجھے جانے والے ابوظہبی کے امیر اور حکمران شیخ خلیفہ بن زاید بن سلطان النہیان متحدہ عرب امارات کے دوسرے صدر تھے۔ جنھوں نے علاقائی ترقی کے زور پر اپنے ملک کو دنیا کے نقشے پر پہچان دلائی ہے۔ طبیعت کی خرابی کے باعث حکومتی کام کی نگرانی ان کے بھائی محمد بن زاید بن سلطان النہیان کر رہے ہیں۔ جو گذشتہ دہائی کے دوران امارات کی خارجہ پالیسی کے سربراہ تھے اور بہترین لیڈر کے طور دنیا میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ اب وہ ملک کے صدر بن چکے ہیں۔ شیخوں کے اس خاندان نے اپنے ملک کو ایک قبائلی ریاست سے مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور ملک میں کیسے تبدیل کیا؟

(1) متحدہ عرب امارات کا مختصر جائزہ؟

1960ء کی دہائی کے آخر تک برطانیہ نے جزیرہ نما عرب کے ممالک میں اپنی کالونیوں سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔ ایک صدی قبل انگریز وہاں اس وقت آئے جب کچھ جنگجو قبائلی وہاں سے گزرنے والے مال بردار جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان پر قابو پانے کے لیے ہی انگریز وہاں آئے تھے۔ اگرچہ وہاں تیل دریافت ہوا لیکن جب انگریزوں نے وہاں رہنے میں فائدے سے زیادہ خطرہ دیکھا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

اس کے پیچھے بڑی وجہ چھ امارات (دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ) کے شیخوں کا باہمی معاملات کے تصفیہ اور ہم آہنگی کے لیے ایک کونسل بنانے کا فیصلہ تھا۔ دسمبر 1971 میں ان چھ اماراتوں نے متحد ہو کر ایک نیا خود مختار ملک، متحدہ عرب امارات تشکیل دیا۔ چند ماہ بعد ایک اور امارات راس الخیمہ بھی ان میں شامل ہو گیا جو آج بھی متحدہ عرب امارات کے نقشے پر موجود ہے۔ ابوظہبی کے اس وقت کے امیر شیخ زاید بن سلطان النہیان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔

تیل کی دریافت ہو چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر معیشت میں سرمایہ کاری کی گئی اور عوامی پیسے کو بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل خلیج فارس کے دوسرے سنی ممالک (سعودی عرب، عمان، قطر، بحرین اور کویت) جیسا ہی تھا۔ فرام ڈیزرٹس کنگڈم ٹو گلوبل پاور۔ دی رائز آف دی عرب گلف، میں مرخ روری ملر کا دعوی ہے کہ ان ممالک کی بے پناہ اقتصادی کامیابی کے پیچھے تیل کی آمدنی کو مختلف اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کرنا اور غیر منقولہ اثاثوں جیسے کہ رئیل اسٹیٹ، آرٹ اور سٹاک میں تبدیل کرنے کی مہم کار فرما تھی۔

(2) جبل علی فری زون مصروف ترین بندرگاہ۔

دیگر خلیجی ممالک میں متحدہ عرب امارات نے سب سے زیادہ ترقی اور سب سے زیادہ فی کس آمدنی کے ساتھ بہت کم وقت میں خود کو دولت مند بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ تیل تمام امارات کے لیے یکساں طور پر دستیاب نہیں تھا لیکن یہ ابوظہبی کی ترقی کا سب سے بڑا محرک بن گیا، اس کے تیل کی فراوانی متحدہ عرب امارات کی اقتصادی ترقی کی کامیابی کا سب سے بڑا ہتھیار بن گئی۔

ایک نیم خود مختار امارت ہونے کے ناطے، اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں تبدیلیوں کے ذریعے انھیں مضبوط بنانے کی صلاحیت نے ان کی معیشت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ کچھ امارات نے سیاحت پر توجہ مرکوز کی، دوسروں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی، اور اس طرح 1985 میں دبئی کے مضافات میں ایک بڑا تجارتی بندرگاہ اور تجارتی مرکز، جبل علی فری زون قائم ہوا۔ اپنے قیام کے تقریباََ 40 سال بعد بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی علاقہ ہے۔

(3) گولڈن ویزا کی تفصیلات؟

گولڈن ویزا دس سالہ رہائشی پرمٹ ہے جس کا اعلان 21 مئی کو کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر "گولڈن کارڈ" کا اعلان کرتے ہوئے لکھا: "ہم نے سرمایہ کاروں، انتہائی قابل ڈاکٹروں، انجینئروں، سائنسدانوں اور فنکاروں کو مستقل رہائش دینے کے لئے گولڈن کارڈ اسکیم لانچ کیا ہے۔ "

اس ٹویٹ میں انھوں نے مزید کہا کہ "اس کے تحت مجموعی طور پر 100 ارب درہم تک کی مالیت کی سرمایہ کاری کرنے والے 6800 سرمایہ کاروں کو پہلے دور میں "گولڈن کارڈ" جاری کیا جائے گا" جن کا تعلق 70 ممالک سے ہو گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گولڈن کارڈ کا مقصد متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کرنے والوں، بین الاقوامی اہمیت کی بڑی کمپنیوں کے مالکان، اہم شعبے کے پیشہ وروں، سائنس کے میدان میں کام کرنے والے محققوں اور باصلاحیت طلبہ کو متحدہ عرب امارات کی ترقی میں شامل اور متوجہ کرنا ہے۔

(4)گولڈن کارڈ کے فوائد۔

گولڈن کارڈ ویزا ہولڈرز کو کئی سہولتیں حاصل ہوں گی جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ بغیر کسی دوسرے شخص یا کمپنی کی مدد کے یو اے ای میں اپنے شوہر یا بیوی اور بچوں کے ساتھ قیام کر سکیں گے۔ اس سے قبل کسی بھی غیر ملکی کو وہاں ٹھہرنے کے لیے کسی سپانسر کی ضرورت ہوا کرتی تھی اور گولڈن ویزا کے علاوہ تمام لوگوں کے لیے اب بھی وہی اصول ہے۔

اس کے علاوہ گولڈن کارڈ ہولڈر تین ملازمین کو سپانسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ انھیں اپنی کمپنی میں ایک سینیئر ملازم کے لیے رہائشی ویزا بھی حاصل کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ درخواست کے پہلے دور میں 70 سے زیادہ ممالک کے 6800 افراد کو فائدہ ہو گا۔ دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم نے 21 مئی کو گولڈ کارڈ سکیم جاری کی تھی۔

متحدہ عرب امارات کے حکام نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس وقت تک تقریباََ 7000 درخواست کنندہ گان میں سے کم از کم 400 افراد کو گولڈن ویزا جاری کر دیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے "دی نیشنل" اخبار کے مطابق ریزیڈنسی اور فارن افیئرز کے جنرل ڈائریکٹوریٹ کے ڈی جی میجر جنرل محمد الماری نے کہا کہ اس ویزا کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اور ہر دس سال بعد کارڈ کی مزید دس سال کے لیے تجدید کی جائیگی۔

جنرل الماری نے مزید بتایا کہ جن افراد کی تنخواہ ماہانہ 30 ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہو گی وہ اس ویزے کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ ایسے پیشہ وروں کے پاس بیچلر یا اس کے مساوی ڈگری ہوں اور ان کے پاس پانچ سال کام کے تجربے کے ساتھ ملازمت کے جائز کنٹریکٹ بھی ہوں۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت کو یہ تیز ترین ترقی مبارک ہو۔ دلی دعا ہے کہ انہوں نے جس طرح نہ اپنی عوام کو بے مثال سہولیات دی ہیں اسی کی بدولت دنیا کے امرا متحدہ عرب امارات میں اپنے لئے ایک گھر رکھنا اعزاز سمجھتے ہیں۔

Check Also

Lebanon, Arab Ki Wahid Esaayi Riyasat

By Mansoor Nadeem