Syedna Ali Ul Murtaza Nabgha e Rozgar Shakhsiyat
سیدنا علی المرتضیؓ نابغہ روز گار شخصیت
ولادت باسعادت، نام ونسبت اور خاندان، قبول اسلام، ہجرت مدینہ، مواخات مدینہ، سیدنا فاطمہ الزھراؓ سے شادی، غزوات، اعزازات، دور صدیقی ؓ، دور فاروقی ؓ، دور عثمانیؓ میں خدمات، سیدنا علی المرتضیؓ کا دور خلافت اور شہادت، ولادت سے وفات تک مستند روایات و واقعات پر مبنی فکرانگیز مقالہ پیش خدمت ہے۔
(1) ولادت باسعادت:
صحیح روایات کے مطابق حضرت علی المرتضیٰؓ بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔ ابن سعد کے مطابق۔ "آپؓ کی پیدائش رجب کے مہینہ، عام الفیل کے سنہ 30 میں (چھٹی صدی عیسوی) رجب کی بارہ راتیں گزرنے کے بعد ہوئی"۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3)
(2) نام و نسب اورخاندان:
حضرت علی المرتضیٰؓ کے والد کا نام ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف تھا۔ ابوطالب کی پیدائش حضور اکرمﷺ کی ولادت باسعادت سے 53 سال قبل ہوئی۔ مشہور روایت کے مطابق ابوطالب کا نام عبدمناف تھا، مگر وہ اپنی کنیت سے مشہور ہوئے۔ ابن اسحاق رقم طراز ہیں۔ "یہ ابوطالب ہی تھے کہ جنھوں نے رسول اللہﷺ کی آپ کے دادا کے بعد پرورش و خبر گیری کی ذمہ داری قبول کی، اور ہمیشہ ان کی حمایت کی اور ساتھ دیا"۔ (سیرت ابن ہشام)
نبوت کے دسویں سال وسط شوال میں ابوطالب کی وفات ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال سے متجاوز تھی۔
حضرت علی المرتضی ٰؓ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہؓ بنت اسد تھا۔ انھوں نے اسلام قبول کیا، اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ جب ان کی وفات ہوئی، تو نبی کریمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اپنا کُرتا (کفن کے طور پر) پہنایا۔ ان کی قبر میں پہلے خود اندر جاکر لیٹے۔ یہ سب ان کی خدمات اور شفقت کا اعتراف اور عزت و تعظیم کا اظہار تھا۔ (للذہبی جلد2)
حضور اکرمﷺ اپنی چچی فاطمہؓ بنت اسد کے متعلق فرمایا کرتے تھے۔ "میری والدہ کے انتقال کے بعد جن کے بطن سے میں پیدا ہوا، یہی میری ماں تھی۔ ابوطالب جب دعوت کرتے، گھر کے سب لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شریک کرتے، یہ خاتون کھانے میں سے کچھ بچاکر رکھ لیتی تھیں اور میں کسی اور وقت اس کو کھالیتا"۔ (مستدرک حاکم)
حضرت علی المرتضیٰؓ چار بھائی تھے۔ طالب، عقیل، جعفر اور چوتھے خود۔ آپؓ کی دوبہنیں تھیں، ام ہانی اور جمانہ۔ حضرت علیؓ حضرت جعفرؓ سے دس سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کے بھائی طالب غزوہ بدر کے بعد حالتِ شرک میں فوت ہوئے۔ ایک روایت ہے کہ وہ کہیں باہر گئے تھے۔ واپس نہیں آئے اور ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ (المرتضیٰؓ)
دوسرے بھائی حضرت عقیلؓ جن کی کنیت ابو یزید تھی، فتح مکہ کے وقت ایمان لائے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
ابن سعد کہتے ہیں۔ "حضرت عقیلؓ کی وفات حضرت معاویہؓ کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی"۔ تیسرے بھائی حضرت جعفرؓ تھے، جو کہ ابتدا ہی میں اسلام لے آئے تھے۔ ان کا شمار سابقین اوّلین میں ہوتا ہے۔ حضرت جعفرؓ رسول اللہﷺ کی زندگی میں جمادی الاوّل 8 ہجری میں غزوہ موتہ کے موقع پر شہید ہوئے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے۔ "جب رسول اللہﷺ کو حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر ملی، تو چہرہ مبارک پر غم کے نمایاں اثرات دیکھے گئے"۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہؓ)
(3) قبولِ اسلام:
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیں۔ "خواتین میں سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں، پختہ کار اور پختہ عمر لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے، اور کم عمر والوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علیؓ بن ابی طالب تھے"۔ (المرتضیٰ صفحہ35)
(4) ہجرتِ مدینہ:
ابن سعد، حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: "جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کی نیت سے مدینہ تشریف لے گئے، تو مجھے حکم دیا گیا کہ میں آپ ﷺ کے بعد یہاں ٹھہرا رہوں تاکہ وہ امانتیں جو لوگوں کی رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں، وہ سب ان کے مالکوں کو پہنچادوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد تین روز رہا۔ لوگوں کے سامنے آتا جاتارہا اور ایک روز بھی غائب نہیں رہا۔ تین دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ جس راستے سے گئے تھے، اس پر چلتا ہوا میں بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں پہنچا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف رکھتے تھے۔ میں بھی کلثوم بن الہدم کے مکان پر پہنچا، جو رسول اللہ ﷺ کے قیام فرمانے کی جگہ تھی"۔ (کنز العمال جلد8، صفحہ 335، طبع حیدرآباد)
(5) مواخات مدینہ:
ابن سعد لکھتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب اور سہل بن حنیفؓ کے درمیان بھائی چارہ (مؤاخاۃ) کا تعلق قائم کیا"۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3)
(6) شادی:
ہجرت کے دوسرے سال رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا عقد حضرت علیؓ سے کردیا۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی کو مخاطب کیا اور فرمایا: "میں نے تمھارا نکاح اپنے اہل بیت کے بہترین فرد سے کردیا ہے، پھر ان کو دعائیں دیں"۔ (ازالۃ الخفاء)
عطاء بن السائب اپنے والد سے اور وہ حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: "رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو ایک دبیز چادر میں رُخصت کیا اور جہیز میں ایک مشکیزہ، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں اذخر (خوشبودار گھاس، جو کہ عرب میں پائی جاتی تھی) کی چھال بھری تھی عطا فرمایا"۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
(6) غزوات و دیگر اعزازات:
آپؓ نے غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ شوال پانچ ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا، جسے غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے، اس معرکہ میں آپؓ نے عمروبن عبدود کا مقابلہ کیا، اور اسے جہنم واصل کیا۔ ذیقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، یہ معاہدہ لکھنے کا اعزاز آپؓ نے حاصل کیا۔ ہجرت کے ساتویں سال غزوہ خیبر پیش آیا، اس معرکہ میں آپؓ کے ہاتھوں مرحب قتل ہوا اور خیبر فتح ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علی ؓ:
حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ٹھہرے، تمام مسلمانوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (البدایہ والنہایہ)
ابن کثیر کہتے ہیں: "حضرت علیؓ نے کسی وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور کسی نماز میں بھی غیرحاضر نہیں رہے"۔ (البدایہ والنہایہ: جلد5)
(7) حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت علیؓ رشتہ محبت:
حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت علیؓ میں باہمی محبت و اعتماد کا رشتہ تھا۔ یہی وجہ ہے حضرت علی المرتضیٰ ؓنے اپنے ایک بیٹے کا نام ابوبکر رکھا تھا۔ (البدایہ والنہایہ جلد7)
حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کےصاحبزادے محمد کو گود لیا اور خصوصی نگہداشت کی۔ (تاریخ الخمیس جلد2)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وصال کی خبر سن کر حضرت علی المرتضیٰ ؓنے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اور روتے ہوئے وہاں پہنچ کر کہنے لگے: "اے ابوبکرؓ! آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ واللہ! آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے، سب سے زیادہ آپؓ کا ایمان کامل تھا، سب سے زیادہ آپؓ کا یقین پختہ تھا، آپؓ سب سے زیادہ اللہ کا خوف اپنے دِل میں رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ پر سب سے زیادہ اعتماد رکھنے والے تھے۔ حضور اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ، خوبی و بلندی کردار سے آپؓ ہی کو سب سے زیادہ مشابہت و مناسبت تھی۔ حضور ﷺ کے نزدیک زیادہ محترم اور زیادہ قابل اعتماد آپؓ ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کو جزائے خیر دے۔ آپؓ نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کی، جب سب نے تکذیب کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپؓ کو صدیق قرار دیا، اور فرمایا: ترجمہ۔ "جو سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی، یہی لوگ متقی ہیں"۔ (سورۃ الزمر: 33)
آپؓ نے حضورﷺ کی اس وقت غم خواری کی، جب انھیں ضرورت تھی۔ آپؓ نے سختی اور مصیبت کے وقت رسالت مآبﷺ کا ساتھ دیا۔ ثانی اثنین کا اعزاز صحبت رکھنے والے، ہجرت میں آپﷺ کے رفیق، اُمت میں بہترین قائم مقامی (یعنی خلافت کا حق ادا) کرنے والے آپؓ ہی تھے۔ آپؓ اس وقت مضبوط رہے، جس وقت آپﷺ کے ساتھی ڈھیلے تھے۔ آپؓ سب میں زیادہ دیر تک خاموش رہنے والے اور سب سے زیادہ جچی تلی بات کرنے والے تھے۔ دِل کے سب سے زیادہ شجاع، عمل میں سب سے زیادہ برتر، شان کے مالک تھے، جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "جسم کے کمزور اور خدا کے حقوق ادا کرنے میں قوی، اپنی ذات کے لحاظ سے منکسرالمزاج مگر اللہ کے نزدیک ذی وجاہت، آسمان و زمین میں پسندیدہ" اللہ تعالی آپؓ کو ہماری طرف سے بہترین صلہ و جزا عطا فرمائے"۔ (الجوہرۃ فی نسب النبیﷺ و اصحابہ العشرہ جلد 2 صفحہ 126)
(8) حضرت عمر ؓحضرت علیؓ میں محبت وخلوص:
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کے درمیان کمال درجہ تک محبت و اخلاص کا درجہ قائم تھا۔ جب حضرت عمر فاروقؓ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے، تو اپنی جگہ قائم مقام حضرت علی المرتضیٰ ؓکو بنایا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنی صاحبزادی ام کلثومؓ کو حضرت عمرفاروقؓ کی زوجیت میں دیا تھا۔ یہ محبت و اخوت اور یگانگت کی واضح اور خوب صورت مثال ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ، ایرانی النسل ابولؤلؤ فیروز کے ہاتھوں 26 ذوالحجہ 23ھ کو شدید زخمی ہوئے، اور یکم محرم 34ھ ہفتہ کے روز شہید ہوکر پہلوئے مصطفیﷺ میں جاسوئے۔
حضرت ابوجحیفہ ؓفرماتے ہیں: "جب حضرت عمرؓ کی شہادت ہوچکی تھی، ان کا جسد خاکی ایک چادر سے ڈھکا ہوا تھا، میں ان کے پاس تھا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ آئے، حضرت عمرؓ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور چہرہ کو دیکھ کر کہا: "ابوحفصؓ! آپؓ پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے، جس کے نامہ اعمال کے ساتھ میں اللہ کے سامنے جانا پسند کروں"۔ (مسند امام احمد بن حنبل۔ مسند علیؓ بن طالب)
حضرت علی المرتضیٰؓ حضرت عمرؓ کی جدائی پر رورہے تھے، ان سے پوچھاگیا: "کیوں رورہے ہو؟"
فرمایا: "حضرت عمرؓ کی جدائی پر رورہا ہوں۔ حضرت عمرؓ کی جدائی اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے، جو قیامت تک پُر نہیں کیا جاسکے گا"۔ (الفتوحات الاسلامیہ جلد2 صفحہ 429 از سید احمد زینی)
(9) خلافتِ عثمانیؓ میں حضرت علیؓ کا کردار:
حضرت عمرفاروقؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ نامزد ہوئے۔ آپؓ کے عہد خلافت پر العقاد کا تبصرہ ملاحظہ کیجئے: "حضرت عثمانؓ نے اختیارات سنبھالنے کے بعد سلطنت کے امور خارجہ کو جس طرح قابو میں کیا اور جو حالات اچانک سامنے آگئے تھے، ان کا مداوا جس پامردی، استقلال اور عزم کے ساتھ کیا، وہ قابل تعریف ہے۔ ہوشمندی، معاملہ فہمی، احتیاط و اعتدال کے ساتھ جلد کارروائی، حکام اور ان کے خلاف دعویٰ داروں کے معاملہ میں نرمی کی پالیسی ہی مناسب تھی"۔ (العبقریات الاسلامیہ صفحہ 804)
حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں باغیوں نے شورشوں کی انتہا کردی، یہاں تک آپؓ کو گھر کے اندر ہی محصور کردیا گیا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کی طرف سے مدافعت اور باغیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اجازت طلب کی، تو حضرت عثمانؓ نے کہا: "میں خدا کا واسطہ اس شخص کو دیتا ہوں، جو اللہ کو مانتا اور اس کو حق سمجھتا اور اس بات کو تسلیم کرتا ہے، کہ میرا اس پر کوئی حق بھی ہے، ایک پچھنے کے لگانے پر بھی میری خاطر خون نہ بہائے"۔
حضرت علیؓ نے دوبارہ اجازت طلب کی، اور انھوں نے دوبارہ یہی جواب دیا۔ پھر حضرت علیؓ مسجد میں آئے، اذان ہوئی، لوگوں نے کہا:
"اباالحسنؓ! آگے بڑھیے اور نماز پڑھائیے"۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا: "امام جب کہ قید خانہ ہے، میں نماز نہیں پڑھاؤں گا۔ لیکن میں تنہا اپنی نماز پڑھوں گا"۔ چنانچہ تنہا نماز پڑھ کر اپنے گھر واپس گئے۔ (عثمان بن عفان ذوالنورینؓ از صادق عرجون)
حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا جب محاصرہ ہوا، تو دفاع کے لیے حضرت علیؓ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی موجود تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ کو 18 ذوالحجہ 35 ہجری میں شہید کردیا گیا۔
(10) حضرت علی المرتضیٰؓ کا دورِ خلافت:
حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد زمام حکومت سنبھالی۔ آپؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہادی بناکر بھیجا ہے جو خیر و شر کو وضاحت کے ساتھ بتاتی ہے۔ لہٰذا خیر کو اختیار کیجیے اور شر سے کنارہ کش رہیے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے، ان میں سب سے فائق حرمت مسلمان کی ہے"۔
آپؓ نے اپنے خطبہ میں یہ بھی فرمایا: "آخرت کی زندگی لوگوں کی منتظر ہے۔ اللہ کے بندوں اور ان کی سرزمین کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہیے۔ بہائم اور زمین کے بارے میں بھی قیامت میں سوال ہوگا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ اللہ کی اطاعت کریں اور اس کی معصیت و نافرمانی سے بچے"۔ (المرتضیٰؓ صفحہ 229، 230)
آپؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جمل اور صفین کے دلدوز واقعات پیش آئے۔ سبائیوں اور خارجیوں نے اسلام اور اہلِ اسلام کو ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
(11) شہادتِ حضرت علی المرتضیٰ ؓ:
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی المرتضیٰؓ کے حوالے سے کہتے ہیں: "آپؓ سب سے زیادہ اللہ کے عبادت گزار، سب سے زیادہ خوفِ خدا رکھنے والے انسان تھے۔ پھر بھی لوگوں نے ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ ان سے کنارہ کش ہوگئے۔ کہتے تھے یہ (اپنی ریش مبارک کی طرف اشارہ کرکے) اس کو خون سے رنگ دیا جائے گا۔ اور بالآخر یہی ہوکر رہا"۔ (البدایہ والنہایہ جلد7)
ایک روز آپؓ فجر کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے، کہ راستے میں ابن ملجم خارجی نے حملہ کرکے آپؓ کو شہید کردیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
آپؓ 63 سال کی عمر میں 21 رمضان المبارک کو دارِ فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ آپؓ کی مدت خلافت 4 سا ل 9 ماہ ہے۔ آپؓ کی نمازِ جنازہ آپؓ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ نے پڑھائی اور کوفہ کے دارالامارہ میں مدفون ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ جلد 7)
اللہ تعالی اپنی شایان شان آپ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔