Shan e Farooq e Azam
شان فاروق اعظم
سیدنا حضرت عمرؓ کی شانِ اقدس میں چند فرامینِ رسالت مآب ﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ "اے ابن خطاب!اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہوا شیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔ " (صحیح بخاری)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ:"حضور پاکؓ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "علم"۔
امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میں درج کی ہے کہ "سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک، اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی و کھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی، اصحابِ رسول ﷺ نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"دین "۔
مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ "یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمرؓ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے۔
حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ "رسول مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے"۔
اسی حدیث مبارکہ میں لفظ"مُحدَث"کی تشریح میں صاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ:"المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔ "
"محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے"۔ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے۔
ایک بار سیدنا عمرؓ شفیع اعظم نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا: "یا أخي أشرکنا في صالح دعاء ک ولا تنسنا"۔۔ "اے میرے بھائی! اپنی نیک دعاوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا"۔
بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی حدیث ہے کہ:" ایک دفعہ حضور پرنور ﷺ اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ، عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کا پہاڑ لرزنے لگا تو حضور انور ﷺ نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: "اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ "اس کے بعد سیدنا عمرؓ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: "اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک"۔۔ "اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب ﷺ کے شہر میں آئے۔
آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہؓ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا۔
اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے آگے بڑھ کر بجائے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جانا آسان نہ تھا، اس نے اور صحابہ کرام کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ہوئے جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ (خلفائے راشدینؓ، از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب ﷺ میں بلکہ مُصلی رسول ﷺ پر آپ کو 27 ذو الحجہ بروز بدھ زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز اتوار آپؓ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی حضرت صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔