Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Shab e Barat Ki Ahmiyat o Fazilat (2)

Shab e Barat Ki Ahmiyat o Fazilat (2)

شب برات کی اہمیت اور فضیلت (2)

(12) شب برأت میں باجماعت نفل اور صلاۃ التسبیح کا اہتمام؟

بعض مسجدوں میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے، کہ اس رات لوگوں کو جمع کرتے ہوئے باضابطہ یہ اعلان ہوتا ہے، کہ رات کے اتنے بجے باجماعت نفل یا باجماعت صلاۃ التسبیح پڑھی جائے گی، اس طرح کا اعلان و اجتماع اور نوافل کا باجماعت اہتمام بہت بری بدعت ہے، جس کی شریعت اسلامیہ میں اجازت نہیں ہے، اور رسول اللہ ﷺ، صحابہؓ اور اسلافؒ سے ثابت نہیں ہے، فقہاء کرامؒ نے لکھا ہے کہ رمضان کے علاوہ کسی اور موقع پر نفل نماز کو جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے۔ (حاشیۃ الشلبی: 1؍180)

علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں۔

ولا يصلى تطوع بجماعة غير التراويح وما روي من الصلوات في الأوقات الشريفة كليلة القدر وليلة النصف من شعبان وليلتي العيد وعرفة والجمعة وغيرها تصلى فرادى (البحر الرائق: 2؍56)

"تراویح کے علاوہ کوئی بھی نفل نماز جماعت سے نہیں پڑھی جائے گی، اور اوقات شریفہ جیسے کہ شب قدر، پندرہ شعبان کی رات، عیدین، عرفہ، جمعہ وغیرہ کی راتیں ہیں، تو ان میں جو نماز اکیلی پڑھی جائیں گی۔ "

(13) نفلی نماز کے مخصوص طریقے۔

اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شبِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔

اسی طرح بعض لوگ یہ مشہور کرتے ہیں، اس رات ترتیب وار مختلف حاجات کے لئے دو دو رکعت مخصوص سورتوں کی تلاوت کے ساتھ پڑھنی چاہئے، تو وہ حاجتیں پوری ہو جاتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ذخیرۂ احادیث میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، یہ محض لوگوں کی من گھڑت بات ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ اس رات دعا قبول ہوتی ہے، مخصوص کیفیات اور طریقوں کا اہتمام کرنے کے بجائے حسب استطاعت ذکر و تلاوت اور نماز کے ذریعہ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرکے اللہ کے سامنے اپنی حاجتوں کو پیش کرنے سے ان شاء اللہ قبولیت نصیب ہوگی، اور حاجتیں پوری ہوں گی۔

مخصوص قسم کی نماز کو ثابت کرنے کے لئے کئی لوگ اس روایت کو پیش کرتے ہیں۔

"جو شخص پندرہ شعبان کی شب میں سو رکعت میں ایک ہزار مرتبہ (ہر رکعت میں دس مرتبہ) قل ہو اللہ احد پڑھے گا، تو وہ دنیا سے نہیں نکلے گا یہاں تک کہ اللہ اس کے خواب میں سو فرشتوں کو بھیجیں گے جن میں سے تیس اسے جنت کی بشارت دے رہے ہوں گے، تیس اسے جہنم سے بچا رہے ہوں گے، تیس اس کو غلطیوں کو بچائیں گے اور دس اس کے دشمنوں سے انتقام لیں گے۔ "

حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی حدیث ہے ہی نہیں، بلکہ یہ من گھڑت بات ہے جو حدیث کے نام سے پھیلائی گئی ہے، علامہ ابوالحسنات لکھنوی علیہ الرحمۃ نے اس پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ "موضوع" ہے اور علامہ ابن الجوزیؒ، علامہ سیوطیؒ وغیرہ نے اس کو موضوع کہا ہے، اور بعد کے بھی محدثین نے اسی کی صراحت کی ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے۔

(الآثار المرفوعۃ: 79)

(14) شب برأت میں خصوصی روشنی کے انتظامات۔

اس رات بہت سے لوگ خصوصی لائٹنگ اور روشنی کے انتظامات کرتے ہیں، گلیوں کو روشن کرتے ہیں، یہ عمل بھی برا ہے، جس سے بچنا ضروری ہے، آج کی رات تنہائی میں بیٹھ کر عبادت کرنے کے لئے ہے، نہ کہ جشن اور چراغاں اور شور ہنگامے کے لئے، بلکہ اس کے اہتمام میں بہت سے مفاسد ہیں، کہ اس مقدس رات میں انسان ان چیزوں میں پڑ کر "اسراف" اور فضول خرچی میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ ضرورت سے زیادہ بلاوجہ روشنی جلانا اسلام میں ناپسندیدہ ہے، نیز بہت سی جگہوں پر باضابطہ قبرستانوں کو بھی روشن کیا جاتا ہے، یہ بھی ناپسندیدہ عمل ہے، قبرستانوں میں چراغان کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ ایک روایت میں اس پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ (نسائی: 2014)

(15) شب برأت میں قبرستان جانا؟

روایت میں ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ اس رات قبرستان میں تشریف لے گئے، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں، لیکن قبرستان جانے کو اس رات کا ایک لازمی عمل سمجھنا درست نہیں ہے، جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو، اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے۔

چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے، اس لئے اگر کوئی زندگی میں ایک مرتبہ چلا جائے تو ٹھیک ہے، لیکن ٹولیاں بنا کر ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا، اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا، اور اسکو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا، اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے، اور درست نہیں ہے۔

(16) شب برأت میں حلوہ پکانا۔

شبِ برات میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں حالانکہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرامؓ کے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے حلوہ نوش فرمایا تھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم ﷺ کے دندانِ مبارک غزوئہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے۔ اور بھی مخصوص قسم کے کھانوں اور پکوان کو لوگوں نے اس رات سے جوڑ دیا ہے، جو سراسر بےبنیاد ہے، اور اس کی دلیل کے طور پر جو باتیں پیش کی جاتیں ہیں، وہ سب من گھڑت ہیں۔

(17) گھروں کی خصوصی صفائی اور مردوں کی روحوں کے آنے کا تصور؟

گھروں کی صفائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام کیا جاتا ہے، گھروں میں اگربتیاں جلائی جاتی ہیں، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، کسی بھی حدیث سے روحوں کا آنا ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ اور پھر اس عقیدہ کے تحت دیگر کئی کئے جانے والے خرافات کی بھی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس رات میں بندوں پر اللہ کی جو خصوصی توجہ اور عنایت ہوتی ہے، اور جس طرح گنہگاروں کو مغفرت نصیب ہوتی ہے، اس سے محروم رکھنے کے لئے شیطان نے بہت سے لوگوں کو اس کی فضیلت کے اعتراف سے روکا، تو بہت سے اعتراف کرنے والوں کو لایعنی کاموں میں لگایا، ہماری کامیابی اس میں ہے کہ شیطان کی چال کو ناکام بنا کر اس کی فضیلت کو سمجھیں، اور اس کی قدر کریں، اور یہ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں، کہ اس رات میں نہ کوئی مخصوص رسم و رواج ہے، نہ کوئی مخصوص پکوان ہے، اور نہ ہی عبادت کا کوئی مخصوص انداز ہے، ہمیں اس رات میں صرف اللہ کی عبادت کرنی ہے، چاہے تلاوت کی شکل میں ہو، یا نماز کی شکل میں ہو، یا ذکر وتسبیح کی شکل میں ہو۔

اور ان کے علاوہ تمام خرافات نیز لایعنی کاموں، کھیل کود، سیر وتفریح، اور دوستوں کے ساتھ مجلس یا کسی قسم کا مقابلہ وغیرہ سے اپنے آپ کو مکمل بچانا ہے، اگر کچھ نہیں کر سکتے، تو عشاء کی نماز باجماعت پڑھ کر سو جائیں، اور فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرلیں، تو بھی اس رات کی عظمت وبرکت سے محرومی نہیں ہوگی، لیکن اس رات میں خرافات میں لگنا یقینا بڑی محرومی ہے، اور اس رات کی بڑی ناقدری ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، اور اس بابرکت رات سے مستفید ہونے کی توفیق دے۔ اور صحیح معنوں میں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Bijli Kyu Karakti Hai

By Javed Ayaz Khan