Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Shab e Barat Ki Ahmiyat o Fazilat (1)

Shab e Barat Ki Ahmiyat o Fazilat (1)

شب برات کی اہمیت اور فضیلت (1)

اللہ تعالیٰ نے اس امت کو معاف اور عطا کرنے کے مختلف مواقع دئیے ہیں، جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہ پر احساس ندامت کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے، مغفرت خداوندی اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی بخشش سے نوازنے کے لئے "شب برأت"، "شب قدر" اور رمضان جیسے مخصوص اور اہم بخشش کے مواقع بھی عنایت فرمائے ہیں۔

تاکہ ان سے اس امت کے گناہ گار اور نافرمان فائدہ اٹھا کر اپنی جنت کو اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی تعمیر کر لیں، اور سارے گناہوں سے پاک و صاف ہو کر اس دنیا سے عالم جزاء و سزا کا رخ کریں، نیز اللہ تعالیٰ کے حبیب کی محبوب امت کو اپنے جرائم کے احساس کے وقت اپنے بچاؤ سے متعلق ناامیدی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور اسے قیامت کے دن بھی دربار خداوندی میں شرمندگی و افسردگی کے بے فائدہ احساس میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔ ذیل میں شب برات سے متعلق احادیث پیش خدمت ہیں۔

شب برأت کی فضیلت احادیث نبویہ میں۔

(1) حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

"اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ ساری مخلوق کی مغفرت کر دیتا ہے۔ "

اس روایت کو علامہ ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ہیثمی اس روایت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں، کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد۔ روایت نمبر۔ 6921)

(2) حضرت ابو ثعلبہ خشنی نبی اکرم ﷺ کا قول نقل کرتے ہیں۔

"اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی شب اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تمام مومنین کی مغفرت فرما دیتے ہیں، اور کافرین کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں، اور کینہ پرور کی جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آئے، اس کے کینہ پروری کی وجہ سے مغفرت نہیں فرماتے۔ "

(المعجم الکبیر۔ مکحول عن ابی ثعلبۃ 22/223، روایت نمبر۔ 590)

(3) حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

جب پندرہ شعبان کی شب آئے، تو اس رات کو عبادت کرو، اور اس دن روزہ رکھو، اس لئے کہ اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں، اور صبح صادق تک یہ اعلان کرتے رہتے ہیں، کہ کوئی ہے مغفرت کا طالب جس کی میں مغفرت کر دوں؟ کیا کوئی رزق کا طلب گار ہے، جسے میں رزق عنایت کروں؟ کیا کوئی مصائب میں مبتلا ہے، جسے میں اس سے نجات دوں؟

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

(4) حضرت عثمان بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔

"جب پندرہ شعبان کی رات آتی ہے، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے، کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں، کیا کوئی سائل ہے کہ میں اسے دوں؟ تو بدکار عورت اور مشرک کے علاوہ جو شخص بھی کسی چیز کا سوال کرتا ہے اسے وہ چیز دے دی جاتی ہے۔ "

(الفتح الکبیر۔ 1؍133، روایت نمبر۔ 1319)

(5) حضرت عائشہؓ اس رات رسول اللہ ﷺ کے جنت البقیع تشریف لے جانے کا واقعہ بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں۔

"میں ایک رات نبی اکرم ﷺ کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ "بقیع" میں موجود ہیں، اور اپنا سر آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اے عائشہ! کیا تمہیں اس بات کا خوف ہے، کہ تم پر اللہ اور اس کا رسول ظلم کریگا، میں نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں سمجھتی، البتہ میں نے یہ سمجھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ پندرہ شعبان کی شب اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں، اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتے ہیں۔ "

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ سنن ترمذی۔ کتاب الصوم، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

(6) حضرت عائشہؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے، کہ رسول کریم ﷺ نے آپ سے فرمایا۔

"میرے پاس جبرئیلؑ آئے، اور انہوں نے کہا کہ یہ پندرہ شعبان کی رات ہے، اس میں قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر جہنم سے لوگ آزاد کئے جاتے ہیں، اللہ اس رات مشرک، کینہ پرور، قطع رحمی کرنے والے، والدین کے نافرمان اور شراب پینے والے کی طرف نظر رحمت نہیں کرتے، حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں، کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر سے کپڑے ہٹائے، اور فرمایا اے عائشہ کیا تم مجھے آج کی رات عبادت میں مصروف رہنے کی اجازت دوگی؟ (حضرت عائشہؓ کہتی ہیں) میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان (ضرور آپ عبادت کریں میری طرف سے اجازت ہے) چناں چہ رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، اور آپ اتنی دیر سجدہ میں پڑے رہے، کہ مجھے یہ خیال آنے لگا کہ کہیں آپ کی وفات تو نہ ہوگئی ہو۔ "

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔

"پندرہ شعبان کی رات میں نبی کریم ﷺ دعا کررہے تھے، اور سجدے میں کہہ رہے تھے، اے اللہ میں آپ کے عتاب سے آپ کی معافی کی پناہ چاہتا ہوں، آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضا کی پناہ چاہتا ہوں، اور آپ کی پکڑ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ مجھے جبرائیلؑ نے کہا ہے، کہ میں ان کلمات کو اپنے سجدہ میں بار بار کہوں، اور یہ کلمات مجھے سکھائے گئے ہیں۔ "

اس لئے اس رات اس دعا کو بطور خاص خوب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، بالخصوص سجدوں میں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا۔

(الترغیب والترہیب۔ 4191۔ کنز العمال۔ الاکمال من لیلۃ النصف من شعبان، روایت نمبر۔ 35184)

(7) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں۔

"بیشک اللہ پندرہ شعبان کی رات اپنی مخلوق پر متوجہ ہوتے ہیں، اور مشرک و کینہ پرور کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت کر دیتے ہیں۔ "

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

(8) حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

یطلع اللہ عزوجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الالاثنین۔ مشاحن وقاتل نفس

(مسند احمد۔ مسند عبد اللہ بن عمر، روایت نمبر۔ 6642، یہ حدیث حسن ہے، علامہ البانیؒ نے اس کی صراحت کی ہے)

"اللہ عزوجل پندرہ شعبان کی شب اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور دو قسم کے لوگوں یعنی کینہ پرور اور خودکشی کرنے والے کے سوا سارے بندوں کی مغفرت کر دیتے ہیں۔ "

(9) حضرت ابوبکرؓ رسول اکرم ﷺ سے نقل کرتے۔

"جب پندرہ شعبان کی شب آتی ہے، تو اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں، اور مشرک اور اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے لوگوں کے سوا سب کی مغفرت کر دیتے ہیں۔ "

(مجمع الزوائد، حدیث نمبر۔ 75921، امام بیہقی ترغیب میں فرماتے ہیں۔ لاباس باسنادہ)

(10) حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

الله لعباده إلا لمشرك أو مشاحن

(مسند البزار۔ ص۔ 245، علامہ ہیثمی کہتے ہیں۔ اس کے ایک راوی ہشام سے میں واقف نہیں ہوں البتہ بقیہ سارے راوی ثقہ ہیں)

"جب نصف شعبان کی شب آتی ہے، تو اللہ مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ اپنے سارے بندوں کی مغفرت کر دیتے ہیں۔ "

(11) شب برأت میں عبادت کس طرح کرنی چاہیے؟

شب برأت میں جاگ کر عبادت کا اہتمام مستحب ہے، اس کے لئے شرعی طریقہ یہ ہے، کہ ہر آدمی اپنی مرضی سے انفرادی طور پر عبادات میں مصروف ہو، اس رات عبادت کے لئے لوگوں کو جمع کرنے یا اجتماعی طور پر کسی عبادت کا اہتمام کرنے کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے، اور بدعت میں شمار کیا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ۔ احیاء)

علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں۔

يكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد (البحر الرائق۔ 96/2)

"ان فضیلت والی راتوں میں سے کسی رات میں جاگنے (عبادت) کے لئے مسجدوں میں اجتماع مکروہ ہے۔ "

اس لئے اس رات کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے ہر شخص کو اپنی خوشی سے انفرادی طور پر حسب استطاعت عبادت کا اہتمام کرنا چاہئے، چاہے وہ تلاوت و ذکر کی شکل میں ہو، یا نماز و مناجات کی شکل میں ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے نبی اکرم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان کرنے پر اکتفاء کیا، اور خود اکیلے عبادت میں مصروف رہے۔ خود حضرت عائشہؓ کو بھی نہیں کہا، کہ وہ بھی عبادت میں مصروف ہو جائیں، اور نہ صحابہ کرامؓ کو جمع کیا، البتہ یہ حضرات نیکیوں کی تلاش میں رہتے تھے، اور نبی اکرم ﷺکے نقش قدم اور آپ کی تعلیمات کی مکمل پیروی ان کی طبیعت میں رچ بس چکی تھی، اس لئے انہوں نے بھی فضیلت کو سن کر اس رات اپنے اپنے طور پر عبادت کا اہتمام شروع کر دیا۔

Check Also

X-Wife Ki Tareef Kaise Ki Jaye

By Mohsin Khalid Mohsin