Roze Ka Asal Maqsad Aur Mansha (2)
روزے کا اصل مقصد اور منشاء (2)
شیاطین کا بند ہونا، اس لیے ہو سکتا ہے، کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی و روحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچا سکیں۔ جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے، کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ و فتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلا دیتی ہے۔
یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے، کہ شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہو جاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے، کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اور مہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہو سکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہو جاتی ہیں۔ یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ"۔ (نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان، ص: 44)
الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا، کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے، تو وہ تمنائیں کریں، کہ کاش! سارا سال رمضان ہو جائے۔
(3) قرآن کا نزول رمضان میں:
سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے، جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
"شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ " (البقرۃ: آیت: 185)
"رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے، اُسے چاہیے، کہ وہ اس کے روزے رکھے۔ "
(4) قرآن مجید کا شبِ قدر میں لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر منظور:
اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے:
"إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔ " (القدر: 3تا5)
"بلاشبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے، کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح (جبرائیلؑ) اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔ " گویا رمضان اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا، تو رمضان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان اور قرآن کا جسم اور روح کا سا تعلق ہے۔ رمضان جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے۔
اس لیے اکابرین امت نے رمضان میں روزہ اور تراویح کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔
(5) رمضان کی ہر رات ایک منادی کا اعلان:
رمضان کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے۔
"یا باغي الخیر! أقبل ویا باغي الشر! اقصر۔ "
(مشکوٰۃ، ص: 173)
"اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے طالب! رُک جا۔ " یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو، اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے باز آ جا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، کہ رمضان میں اہلِ ایمان کا عموماً رجحان اور میلان نیکیوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے۔
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہو جاؤ، صحابہ کرام ؓم اجمعین منبر سے قریب ہو گئے۔ جب حضور اکرم ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا، آمین۔ جب دوسرے پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا، آمین۔ جب تیسرے پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا، آمین۔ جب نبی کریم ﷺ خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اُترے، تو صحابہ کرام ؓم اجمعین نے عرض کیا کہ (یا رسول اللہ!) ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، اس وقت جبرائیلؑ میرے سامنے آئے تھے۔
(جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا، آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو، اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا، آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے، اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو جائے۔ میں نے کہا، آمین۔ (مستدرک حاکم)
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے، کہ اس میں ہر ایک انسان اگر یہ کوشش کرے، تو ایک رمضان ہی سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہے، جو شخص رمضان کے روزے رکھے، اور یہ یقین کرکے رکھے، کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں، اور وہ تمام اعمالِ حسنہ کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا، تو رسولِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔
"من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا غفرلہ، ماتقدم من ذنبہٖ وماتأخر۔ " (المؤطا بروایۃ محمد بن الحسنؒ)
"جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے، رمضان میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ "
ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو، اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص وللّٰہیت اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔
(6) رمضان کے روزے سال کے گیارہ مہینے کی عبادت کیلئے تقویت کا باعث ہیں:
دین کے جتنے بھی ارکان ہیں، وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ومددگار اور تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح سے رمضان کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے۔ اور توانائی ملتی ہے۔ اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا، تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا۔ اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔
(7) روزے کی اصل مقصد اور منشاء:
روزہ جن چیزوں سے معمور کیا گیا ہے، اس کا لحاظ رکھا جائے۔ روزہ کا منشأ یہ معلوم ہوتا ہے، کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا جائے، یعنی روزہ کے ساتھ ساتھ تراویح، اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ الحاجۃ، صلاۃ التسبیح، تلاوتِ قرآن، اللہ تعالیٰ کا ذکر، صدقہ، خیرات، عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش، شبِ قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایاجائے۔ اور جتنا ہو سکے ان پر عمل کیا جائے۔
اس ماہ میں غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کا معاملہ کیا جائے۔ ان پر سخاوت کی جائے۔ یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے، اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے، اور ہمارا مقصد پورا ہو جائے۔ یا ہو سکتا ہے، ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو، یا اس قابل نہ ہوں، کہ وہ قبولیت کا مقام حاصل کر سکیں، تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے، کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرما لیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے، کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھے، کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں، رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔
اللہ تعالی ہمیں دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے، اور رمضان کے فیوض و برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔