Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Musalman Do Arab Se Mutjawaz, Iqdamat O Wajoohat

Musalman Do Arab Se Mutjawaz, Iqdamat O Wajoohat

مسلمان دو ارب سے متجاوز، اقدامات و جوہات

عالمی مسلم آبادی 2 بلین سے متجاوز، اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا مذہب بن گیا۔ گلوبل مسلم پاپولیشن ویب سائٹ کے مطابق، دنیا کی مسلم کمیونٹی کی کل آبادی 2006931770 (دو ارب 9 لاکھ) سے تجاوز کر چکی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ 8 ارب سے زائد آبادی پر مشتمل عالمی آبادی کا 25 فیصد سے زائد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔

اسلام ایشیا اور افریقہ کے 26 ممالک میں سرکاری مذہب ہے، اور اسے عالمی سطح پر سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب سمجھا جاتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی 2017 کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ مسلمان عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن جائیں گے۔

پیو نے پیش گوئی کی ہے کہ 2015 اور 2060 کے درمیان مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں دو گنی رفتار سے زیادہ تیزی سے بڑھیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال 2035 تک مسلم والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد عیسائیوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔ جہاں آنے والی دہائیوں میں دنیا کی آبادی میں 32 فیصد اضافہ متوقع ہے، وہیں مسلم آبادی میں 70 فیصد اضافہ متوقع ہے جو 2060 تک تقریباً 3 بلین تک پہنچ جائے گی۔

یہ اس لحاظ سے حوصلہ افزا اور خوش کن ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد بحمد اللہ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب جو کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک کل آبادی کا پانچواں حصہ بتایا جاتا تھا اب چوتھا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو پریشان کن اور حوصلہ شکن ہے کہ آبادی میں اس اضافے اور اتنی بڑی تعداد ہو جانے کے باوجود مسلمانوں کی مجموعی حیثیت اور دنیا کی برادری میں ان کا مقام و مرتبہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ذیل میں وجوہات پیش خدمت ہیں۔

(1) مسلمانوں کے ساٹھ کے لگ بھگ ممالک رسمی طور پر آزاد ملک کہلانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنی پالیسیوں اور معیشت و سیاست میں حقیقی طور پر آزاد نہیں ہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور عسکریت میں بھی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔

دنیا کا کوئی بھی مسلمان ملک (ایک دو کے علاوہ) اسلامی تعلیمات کے مطابق پورے طور پر اسلامی ریاست کی حیثیت نہیں رکھتا اور "خلافت" جو مسلمانوں کے ملّی فرائض میں سے ہے دنیا کے کسی خطے میں قائم نہیں ہے۔

(2) بین الاقوامی تنازعات و معاملات کو نمٹانے والے فورم اقوام متحدہ میں مسلمانوں کو نہ پالیسی سازی میں کوئی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی تشریحات میں مسلمانوں کے عقائد و جذبات کا کوئی لحاظ رکھا گیا ہے۔

چنانچہ آج ہماری مجموعی صورتحال وہی ہے جس کی جناب نبی اکرم ﷺ نے اپنے ایک ارشاد گرامی میں نشاندہی فرمائی تھی: "حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے سنا وہ حضرت ثوبانؓ سے کہہ رہے تھے کہ اے ثوبان! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب دنیا کی قومیں تم پر حملہ آور ہونے کی ایک دوسرے کو یوں دعوت دیں گی جیسے کھانے کے پیالے پر تم ایک دوسرے کو کھانے کے لیے دعوت دیتے ہو؟ ثوبانؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ایسا ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہوگا؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ نہیں تم اس وقت کثیر تعداد میں ہو گے لیکن تمہارے دلوں میں وہن ڈال دیا جائے گا، صحابہؓ نے پوچھا کہ وہن کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا تمہارا دنیا سے محبت کرنا"۔ (مجمع الزوائد للبیہقی ج7ص287)

آج ہماری صورتحال ایسی ہی ہے کہ تعداد کی کثرت اور مال و دولت اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ہم دنیا بھر کی اقوام کے لیے تر لقمہ بنے ہوئے ہیں، جس کا جہاں جی چاہتا ہے حملہ کر دیتا ہے اور وجہ وہی ہے کہ ہم ملی طور پر دنیا کے وقتی مفادات سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر دین کی طرف واپسی اور اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کا راستہ اختیار کریں اور ملی خود مختاری اور وقار کی بحالی کا کوئی راستہ نکالیں کیونکہ اس کے بغیر موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan