Mah e Shawal Mein Raij Ghalat Nazariyat o Bidaat
ماہ شوال میں رائج غلط نظریات و بدعات
ماہ شوال میں ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی رسومات و بدعات رائج ہوگئی ہیں، جن سے بچنا اور دوسروں کو ان افعال و اعمال سے بچانے کے لیے فکر مند رہنا باعث کار خیر اجر و ثواب ہے۔
(1) یکم شوال (عید کے دن) فوتگی والے گھر جانا۔
بعض علاقوں میں جب کسی گھر میں فوتگی ہوتی ہے، تو اس کی وفات کے بعد عزیز و اقارب پہلی عید و بقر عید پر میت کے گھر پہنچنا فرض سمجھتے ہیں، اور وہا ں جا کر تعزیت کرتے ہیں، چاہے انتقال ہوئے مہینوں گزر چکے ہوں۔
اس رسم میں کئی خرابیاں ہیں۔
(1)۔ تعزیت تین دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کرنا سنت ہے، لہٰذا جب ایک مرتبہ تعزیت کی جا چکی ہے، اب عید کے دن دوبارہ تعزیت کرنا سنت کے خلاف ہے۔
(2)۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(3)۔ عید کا دن خوشی کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے، اس دن غم کو تازہ کرکے عید کی خوشی کو غم میں تبدیل کرنا انتہائی مکروہ اور خلافِ شریعت رسم ہے۔
لہٰذا اس بری رسم اور بدعت سیئہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
فتاويٰ الھندیة: (167/1، ط: دار الفکر)
(2) فوتگی والے گھر میں سوگ کا سماں۔
بعض علاقوں میں کسی کے انتقال کے بعد اس کی پہلی عید پر فوتگی والے گھر میں سوگ کا سماں ہوتا ہے، اس گھر کے افراد عید کے دن خوشی منانے، اچھےکپڑے پہننےکو برا سمجھتے ہیں۔ یہ محض خود ساختہ رسم ہے، کیونکہ شرعی اعتبار سے سوگ کی تین دن تک اجازت ہے، البتہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، اس کے چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا واجب ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لئے، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1491)
حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کو (ان کے والد) حضرت ابوسفیانؓ کی وفات کی خبر آئی، تو حضرت ام حبیبہؓ نے تیسرے دن زرد رنگ کی خوشبو منگوا کر اپنی کلائیوں اور اپنے رخساروں پر لگائی اور فرمایا:
مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی، میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: کسی عورت کے لئے، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ اپنی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے خاوند پر کہ اس پر چار ماہ اور دس دن تک سوگ کر ے گی۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1491)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ پہلی عید کے موقع پر مرحوم کے پسماندگان کا سوگ منانا ایک خود ساختہ رسم ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، لہٰذا س سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) عید کے دن قبرستان جانا۔
بعض علاقوں میں یہ رواج ہے، کہ عید کے دن نمازِ عید کے فوراً بعد قبرستان جانے کو ضروری خیال کیا جاتا ہے، اور اس دن قبروں کی زیارت نہ کرنے والوں پر طعن کی جاتی ہے، یہ بدعت اور ناجائز ہے جس کو ترک کرنا لازم ہے، تاہم اگر اس کا التزام نہ کیا جائے اور اسے سنت اور ضروری نہ سمجھا جائے تو عید کے دن قبرستان جانا جائز ہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے۔
"عید کا دن مسرت کا دن ہوتا ہے، بسا اوقات مسرت میں لگ کر آخرت سے غفلت ہو جاتی ہے، اور زیارت قبور سے آخرت یاد آتی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص عید کے دن زیارتِ قبور کرے تو مناسب ہے، کچھ مضائقہ نہیں، لیکن اس کا التزام خواہ عملاً ہی سہی، جس سے دوسروں کو یہ شبہ ہو کہ یہ چیز لازمی اور ضروری ہے، درست نہیں۔ نیز اگر کوئی شخص اس دن زیارت قبور نہ کرے، تو اس پر طعن کرنا یا اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، اس کی احتیاط لازم ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ج: 9، ص: 201، ط: فاروقیہ)
لہٰذا عید کے دن قبرستان جانے کا التزام کرنا، ہر سال اسے لازم اور ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔
(4) ماہِ شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنا۔
بعض لوگ دو عیدوں کے درمیان اور شوال کے مہینے میں نکاح اور شادی کو منحوس سمجھتے ہیں۔ شوال میں نکاح منحوس سمجھنے کی وجہ۔
(1)۔ زمانہ جہالیت میں عربوں کا خیال تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب کہتے کہ "شوال" كا نام "شوال" اس ليے ركھا گيا، كہ اس مہینے میں اوٹنى كا دودھ كم اور ختم ہو جاتا تھا، اور اونٹنی اونٹ سے دور ہو جاتی تھی، اس وجہ سے عرب اس ماہ ميں عقد نكاح کو منحوس سمجھتے تھے، اور کہتے کہ منكوحہ عورت بالكل اسى طرح خاوند سے دور ہو جاتى ہے، جس طرح اونٹنى اونٹ سے دور رہتى اور اپنى دم مارتى ہے۔ (لسان العرب لابن المنظور: 377/11، ط: دار صادر)
(2)۔ اور ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے، کہ ایک مرتبہ شوال میں طاعون پھیل گیا تھا، جس میں بہت سی دلہنیں مر گئی تھیں، اس لئے زمانہ جاہلیت میں لوگ شوال کے مہینے میں نکاح منحوس سمجھنے لگے تھے، اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد: (60/8، ط: دار صادر)
واضح رہے کہ شریعت میں سال کے بارہ مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں، جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور شادی ناکام ہو جاتی ہو۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے اس ماہ میں نکاح کیا، اور اسی ماہ میں رخصتی فرما کر جاہلیت کے باطل خیال و نظریہ کا رد کیا۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ميرے ساتھ شوال ميں نكاح كيا، اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، نبى كريم ﷺ کی بیویوں میں كونسى بیوی مجھ سے زيادہ خوش قسمت تھى؟"(صحیح مسلم: رقم الحدیث: 348، مسند احمد، 24272)
امام نووی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں۔
اہل عرب شوال میں نکاح کرنے یا شوال میں رخصتی کرکے دلہن گھر لانے کو برا سمجھتے تھے، اور بدفالی لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے، کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی، تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیوں کر ہوتی؟ (شرح النووي علی صحيح مسلم: 209/9، ط: دار إحياء التراث العربي)
علامہ ابن كثيرؒ كہتے ہيں۔ "جناب رسول اللہ ﷺ كا شوال ميں حضرت عائشہؓ کو بیاہ کر لانا، ان لوگوں كے وہم اور اعتقاد كا رد ہے، جو دونوں عيدوں كے درميان عورت سے رخصتى ناپسند كرتے ہيں، كہ كہيں ان ميں جدائى ہى نہ ہو جائے، حالانكہ ایسی کوئی بات نہيں ہے۔ البدایة والنھایة: (580/4، ط: دار ھجر)
خلاصہ کلام۔
(1)۔ شوال کے مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنا باطل نظریہ ہے، جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(2)۔ اس خیال کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ نکاح ایک اہم عبادت ہے، جناب رسول اللہ ﷺ اور تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت اور طریقہ ہے۔ (سنن الترمذی: الحدیث نمبر: 1080)
نکاح کے ذریعہ آدمی بدنظری سے بچ جاتا ہے، اور شرمگاہ کی حفاظت ہو جاتی ہے۔ (سنن الترمذی: (الحدیث نمبر: 1081)
اور حدیث شریف میں ہے کہ "بندہ نکاح کرکے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے"۔ (المعجم الأوسط للطبراني: (335/8، ط: دار الحرمين)
سوچنے کی بات ہے کہ جب نکاح اتنی اہم عبادت ہے، تو اس سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے؟
اسی وجہ سے علمائے کرام نے شوال کے مہینے میں نکاح کو مستحب قرار دیا، تاکہ ایک باطل اور غلط عقیدہ کی تردید ہو۔ (شرح النووي علی صحيح مسلم: 209/9، ط: دار إحياء التراث العربي)
اللہ تعالیٰ ہمیں دین سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔