Mah e Shawal Ke 6 Rozon Ki Ehmiat Aur Fazilat
ماہ شوال کے چھ روزوں کی اہمیت اور فضیلت
اسلام کے چوتھے رکن صوم رمضان کی ادائیگی کے بعد ایک مومن اور مسلمان کے لئے سنت، مستحب اور افضل ہے، کہ اللہ کی رضا و خوشنودی اور اصلاح نفس و تزکیہ کے لئے شوال کے چھ روزوں کا خیال رکھیں۔ جس کا خود رحمت اللعالمین ﷺ نے اہتمام فرمایا، اور اپنے اصحاب و ازواج مطہرات کو بھی رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔
(1) شوال کی وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ "شَول" سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
(2) شوال میں رونما ہونے والے اہم تاریخی واقعات:
(1) اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر ہوتی ہے، جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔
(2) اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔
(3) اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔
(4) اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔
(5) اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیلؑ کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور
(6) اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور، صفحہ 443، غنیہ الطالبین صفحہ405، مکاشفۃ القلوب صفحہ693)
(7) اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین ﷺ نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کے لئے نکلے تھے۔
(8) اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ شہید ہوئے تھے۔
(9) اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ 444، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ 46)
(3) شوال کی فضیلت:
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے۔ (یعنی حج کی نیت سے آغازِ سفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان (مشکوٰۃ صفحہ 183)
ترجمہ: جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کر دیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے۔
(4) روزے کی فضیلت:
روزے کی فضیلت و اہمیت متعدد کتبِ احادیث میں موجود ہے ان میں وارد احادیث میں سے چند ایک صحیح احادیث بیان کی جاتی ہیں:
(1) باب الریان سے روزے داروں کو پکارا جائے گا:
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جنت میں ایک دروازہ ہے جسے "ریان" کہا جاتا ہے، قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اندر نہیں جا سکے گا۔ پکارا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب یہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر بعد میں کوئی بھی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا"۔
(صحیح بخاری/1896 وصحیح مسلم/1192)
(2) ایک دن روزہ، چہرہ جہنم سے ستر سال دور:
آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اللہ عزوجل کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، اس دن کے بدلے میں اللہ اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال (کی مسافت تک) دور کر دے گا"۔
(صحیح بخاری/2685 وصحیح مسلم/1153)
(3) روزے دار جہنم سے کوسوں دور:
ایک مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے اللہ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان اتنی بڑی خندق (گڑھا) بنا دے گا جتنا آسمان و زمین کے درمیان فاصلہ ہے"۔
(سنن ترمذی/9333، امام البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے، السلسلة الصحیحة/563))
(4) روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "روزہ جہنم سے ڈھال ہے، جس طرح لڑائی سے بچانے والی تمہاری ڈھال ہوتی ہے"۔
(مسند احمد/3879)
رسالت مآب ﷺ نے فرض روزوں کے علاوہ نوافل روزے بھی مختلف اوقات میں رکھے ہیں اور اپنی امت کو نفل روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ زیر نظر تحریر میں صرف شوال کے چھ روزوں اور ان کے فضائل کا ذکر ہے۔
(5) شوال کے چھ روزے:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر"۔
(صحیح مسلم/1164)
ترجمہ: "جس نے رمضان کے (پورے) روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے برابر ہے"۔
نیز فرمایا: "جَعَلَ اللہُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا، فَشَہْر بِعَشْرَةِ أَشْہُرٍ، وَصِیَامُ سِتَّةِ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ"۔
(صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
"اللہ تعالیٰ نیکی کو دس گنا بنا دیتا ہے، پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کر دیتے ہیں"۔
(6) کیا شوال کے چھ روزے مسلسل رکھے جائیں؟
جواب: شوال کے چھ روزے رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کا فرمان ہے: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر"۔
(صحیح مسلم/1164)
"جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اس طرح ہے جیسے سال بھر کے روزے رکھے ہوں"۔
(شیخ ابن بازرحمہ اللہ، فتاویٰ اسلامیہ/226)
(7) فرض قضا روزے پہلے رکھے جائیں یا شوال؟
جواب: مشروع یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں سے پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال"۔
(صحیح مسلم/1164)
جس نے رمضان کے (پورے) روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے برابر ہے"۔
نیز فرمایا: "جَعَلَ اللہُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا، فَشَہْر بِعَشْرَةِ أَشْہُرٍ، وَصِیَامُ سِتَّةِ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ"۔
(صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
"اللہ تعالیٰ نیکی کو دس گنا بنا دیتا ہے، پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کر دیتے ہیں"۔
(8) ایک اشکال اور اس کا جواب:
ایک آدمی کے ذمہ مسلسل دو ماہ کے روزوں کا کفارہ لازم ہے اور وہ شوال کے چھ روزے بھی رکھنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ روزے رکھنا جائز ہے؟
جواب: واجب یہ ہے کہ جلدی سے پہلے کفارہ کے روزے رکھے جائیں۔ کفارہ کے روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ روزے نفل ہیں اور کفارہ کے روزے فرض ہیں اور انہیں فوراََ رکھنا فرض ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں شوال کے چھ روزوں یا دیگر نفل روزوں سے پہلے رکھا جائے۔
(صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
اللہ تعالیٰ ہمیں شوال کے یہ روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔