Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Madaris Tarmeemi Bill Aur Societies Registration Act 1860 Kya Hai? Khatshat Aur Tasfiya Talab Umoor (2)

Madaris Tarmeemi Bill Aur Societies Registration Act 1860 Kya Hai? Khatshat Aur Tasfiya Talab Umoor (2)

مدارس ترمیمی بل اور سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کیا ہے؟ خدشات اور تصفیہ طلب امور (2)

(5) 26 ویں آئینی ترمیمی کا شق 21 کیا ہے؟

یہ بل 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے معاہدے کا حصہ تھا، جو اکتوبر 2024 میں جمیعت علمائے اسلام (ف) اور حکومت کے درمیان طے پایا تھا۔ سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 دراصل مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے "دینی مدارس کی رجسٹریشن" کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔ اس کے مطابق دینی مدارس کی رجسٹریشن کرنے کا ذمہ دار متعلقہ ڈپٹی کمشنرز ہیں۔

(6) نئے ترمیمی بل کی بعض دیگر شقیں:

(الف) اگر کسی مدرسے کے ایک سے زیادہ کیمپس ہوں، تو انھیں صرف ایک رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی۔ (نہ کہ ہر کیمپس کے لیے علیحدہ رجسٹریشن)۔

(ب) ہر مدرسے کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کروانی ہوگی۔

(ج) ہر مدرسے کے کھاتوں کا آڈٹ ایک آڈیٹر سے کروانا اور آڈٹ رپورٹ رجسٹرار آفس کو جمع کروانا لازمی ہوگا۔

(د) کوئی بھی مدرسہ ایسا مواد نہیں پڑھا سکتا یا شائع نہیں کر سکتا، جو شدت پسندی، فرقہ واریت، یا مذہبی نفرت کو فروغ دے۔

(7) نئے ترمیمی بل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

رواں برس اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے ارکان کی حمایت درکار تھی۔ اس کے لیے صدر پاکستان، وزیر اعظم، حکومتی وزرا اور چیئرمین پیپلزپارٹی مسلسل مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے ان کے گھر گئے۔

مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیمی بل میں سود کے نظام کے خاتمے سمیت اپنی تجاویز شامل کرانے کے علاوہ دینی مدارس کی محکمۂ تعلیم کے بجائے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا بل منظور کرانے کا مطالبہ بھی حکومت سے تسلیم کرایا۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی منظور کیا گیا اور 21 اکتوبر کو اسے دستخط کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26ویں آئینی ترامیمی بل پر اسی دن دستخط کر دیے اور بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا۔ لیکن مدارس کی رجسٹریشن کے ترمیمی بل پر صدر پاکستان نے اعتراضات کے باعث دستخط نہیں کیے۔ صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث مدارس بل قانون کی شکل اختیار نہیں کر پایا۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر پاکستان کے دستخط سے کوئی بل قانون یا ایکٹ آف پارلیمنٹ بنتا ہے۔

ایوان صدر کی جانب سے اس مسئلے پر کوئی باضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان نے بعض آئینی نوعیت کے اعتراضات کے باعث مدارس بل پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

(8) کیا حکومت پر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کا دباؤ ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پر ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں لگنے اور جی ایس پی پلس، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے ممکنہ طور پر ردعمل کے خدشے کی وجہ سے یہ قانون منظور نہیں کیا جارہا۔

(9) یہ اعتراض پہلے کیوں نہیں اٹھائے گئے؟

کسی بھی بل پر قانون سازی کے لیے اسے پہلے کابینہ میں پیش کرکے اس کی مںظوری لینا لازمی ہوتا ہے۔ کابینہ کی منظوری سے قبل ترمیمی بل کو وزارتِ قانون اور کابینہ کی قانون سازی سے متعلق کمیٹی سے گزارا جاتا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مدارس بل پر جو اعتراضات اس وقت اٹھائے جارہے ہیں، کیا وہ اس وقت حکومت کے سامنے نہیں تھے؟ اور اگر ایسا تھا تو کیا یہ بل صرف اس لیے منظور کرایا گیا، کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں حائل رکاوٹیں دور ہوں؟

قائدین اتحاد المدارس کا موقف ہے کے پارلیمنٹ سے بل منظور کرکے روکنا بدنیتی ہے، مدارس رجسٹریشن بل کو مسترد کرکے حالات خراب کرنے کی کوشش ہے، بل مسترد کرنا پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین کے چہرے پر زوردار طمانچہ ہے۔

علماء کرام بل منظور نہ ہونے کے لیے صدر کے ساتھ ساتھ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی ذمے دار قرار دیتی ہے۔

(10) حکومت کیا چاہتی ہے؟

پیر کے روز حکومت کی جانب سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کا اجلاس بلایا گیا۔

اس میں قرار داد کے زریعے حکومت سے مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک رکھنے کے مطالبہ کیا گیا اور کسی بھی صورت ڈی جی آر ای کے نظام کو ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ اس نظام سے لاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے لہٰذا ان طلبہ کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے۔

(11) اس پر علماء کرام کا ردِ عمل؟

وفاقی وزرا اور علماء کرام کے اجلاس کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس پر جی یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس بلا کر علماء کرام کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی۔ علماء کرام کے مقابلے میں علماء کرام کو لایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا ہم ان علماء کرام کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ حکومت اور ادارے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط چھپانے کے بجائے قوم کو سچ بتائے۔

اسی سلسلے میں اتحاد تنظیمات المدارس العربیہ کے (پانچ بورڈز) کے قائدین نے 17 دسمبر کو اپنی شوری کا اجلاس طلب کرکے لائحہ عمل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

(12) مجمع العلوم الاسلامیہ اور ان سے ملحقہ دیگر بورڈ کی رائے:

دوسری طرف ہزاروں مدارس جو اس نئے نظام کے تحت رجسٹر ہو چکے ہیں، صدر مجمع العلوم الاسلامیہ مفتی عبدالرحیم صاحب کے مطابق انھیں اس سے نئے نظام سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹس فعال ہیں اور حکومتی گرانٹس کی بدولت ان کے تعلیمی معیار میں بہتری آئی ہے۔ ان مدارس کے مطابق نئے ڈائریکٹوریٹ کے تحت ان کے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ویزا کے ایشوز بھی حل ہو رہے ہیں۔

(13) یہ مسئلہ کس طرح حل ہو سکتا ہے؟

اگر حکومت مجمع العلوم الاسلامیہ اور ان سے ملحقہ دیگر بورڈ کو وزارت تعلیم سے منسلک کر دے اور اتحاد تنظیمات المدارس العربیہ جن کے ماتحت پانچ بورڈ ہیں، انہیں وزارت صنعت سے منسلک کر دیں۔ تو دونوں جانب کے قائدین اس پر اطمینان کا اظہار کریں گے اور اس مسئلہ کا تصفیہ بآسانی ہو جائے گا۔ دونوں جانب کے تمام بورڈز کے قائدین کا یہی متفقہ مطالبہ ہے۔

بہتر تجویز یہ ہے کہ 17 دسمبر قائدین اتحاد تنظیمات المدارس العربیہ کی پریس کانفرنس سے قبل حکومت دونوں جانب کے علماء کرام اور وفاقی وزرا کو ایک ساتھ بٹھا کر اس مسئلے کو حل کرنے کا اعلان کرے، یہی دور اندیشی اور اسی میں ملک و ملت کی فلاح مضمر ہے۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi