Maah e Safar Ki Haqiqat
ماہ صفر کی حقیقت
صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے، قرآن و سنت سے مزین گفتگو میں اس ماہ کی وجہ تسمیہ اور اہمیت اور چند من گھڑت باتوں کا احوال پیش خدمت ہے۔
1، ماہ صفر کی وجہ تسمیہ؟ صَفر کا لفظ "صِفر" یعنی ص بالکسرہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی خالی ہونے کے ہیں۔ جبکہ صَفَر (ص بالفتح) کے معنی "بھوک، پیٹ کے کیڑے" پیٹ کی ایسی بیماری، جس کی وجہ سے چہرہ زرد پڑجائے" کے ہیں۔ ماہ صفر محرم کے بعد آنے والا مہینہ ہے۔ جس میں اہل مکہ کے سفر پر جانے کی وجہ سے گھر خالی ہو جاتے تھے۔
ماہ صفر کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ علامہ مسعودیؒ لکھتے ہیں کہ، ماہ صفر میں یمن میں بازار لگتے تھے جو "الصفریة" کے نام سے موسوم تھے۔ وہ اس مہینہ میں خوب کھاتے پیتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ جو اس سے روگردانی کرے گا، وہ بھوکا ہلاک ہوگا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینہ کا نام "صفر" اس لیے بھی ہے کہ لوگوں کے جنگ پر چلے جانے کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے تھے۔
علامہ سخاوی نے اپنی تصنیف "اَلْمَشْهُوْرُ فِي أَسْمَآءِ الْأَيَّامِ وَالشُّهُوْرِ" میں اس کی یہی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "اس مہینہ میں لوگ جنگوں اور (تجارتی) سفروں کے لیے نکل پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوجاتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ146)
2، کیا ماہ صفر کی کوئی خاص فضیلت ہے؟ ماہ صفر کی کوئی خاص فضیلت روایات سے ثابت نہیں۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اس مہینہ میں معمول کی عبادات ہی بجا لائیں اور کسی خاص عبادت کا ذکر نہیں ملتا، اور نہ ہی، اس مہینہ کو مصائب و ابتلاء کا مہینہ قرار دیتے ہوئے کوئی خاص دعا سکھائی گئی۔ چنانچہ علامہ احمد بن عبداللہ السلمی تحریر کرتے ہیں۔
ماہ صفر کی فضیلت میں نبی کریمﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔ علامہ صدیق حسن خان صاحب نے کہا کہ "میں ماہ صفر کی فضیلت کی کسی صحیح حدیث سے واقف نہیں، اور نہ ہی اس کی مذمت والی کوئی صحیح حدیث ثابت شدہ ہے۔ (بدع و اخطاء تتعلق بالایام والشھور صفحہ251 مطبع دارالقاسم)
(3) ماہ صفر کے تاریخی اہم واقعات، عہد نبویؐ اور عہد خلفائے راشدین میں ماہ صفر میں جو اہم واقعات رونما ہوئے وہ یہ ہیں۔
2 ہجری میں غزوہ ابواء و غزوہ ودان۔
4 ہجری میں واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ۔
12ہجری میں جنگ مذار، جنگ الیس اور جنگ ولجہ۔
16 ہجری میں فتح مدائن
37 ہجری میں جنگ صفین ماہ صفر میں ہی وقوع پذیر ہوئی۔
ماہ صفر 99 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیزؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔
(4) ماہ صفر کی نحوست کی تردید۔
ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں بدشگونی کے طور پر سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اس میں وہ جنگیں لڑا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں ان کے گھر خالی اور تباہ و برباد ہو جاتے تھے۔ اس لیے وہ اسے بدشگون کے طور پر منحوس تصور کرتے تھے۔ حالانکہ جنگیں اور قتل و غارت اور اس کے نتیجہ میں تباہی و بربادی تو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھی، جو وہ رسم نسئ کی وجہ سے اس مہینہ میں کیا کرتے تھے۔
زمانہ فیج اعوج میں بھی ماہ صفر کے بارہ میں مختلف اقسام کی بدشگونیوں اور توہمات پیدا ہوئے۔ مثلاً شادی بیاہ نہ کرنا، لڑکی کی رخصتی نہ کرنا، نیا کاروبار شروع نہ کرنا، سفر نہ کرنا وغیرہ۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک بعض لوگوں میں جاری ہے۔ کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماہ صفر میں ایسے کاموں کا آغاز برکت سے خالی ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے زمانہ جاہلیت کی رسوم اور توہمات و بدشگونیوں کا خاتمہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرةؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ (صحيح البخاري کتاب الطب باب الجذام)
یعنی ہر بیماری اپنی ذات میں متعدی نہیں ہوتی (جب تک مسبب الاسباب خدا کا اذن نہ ہو) اور بدشگونی، ھامة اور صفر کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جذام کے بیمار سے تم ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
لَا عَدْوَى، وَلَا غُوْلَ، وَلَا صَفَرَ (مسلم کتاب السلام بَابُ لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَ) عدویٰ، غول (بھوت پریت) اور صَفر کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان روایات میں"صَفر" سے علماء نے کئی مفاہیم مراد لیے ہیں۔ بعض شارحین نے اس سے مراد پیٹ کی ایک متعدی بیماری لی ہے۔ جس سے پیٹ میں بڑے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس کی تردید رسول اللہﷺ نے "لَا صَفْرَ" کہہ کر فرمائی۔
کہ یہ بیماری اللہ کے اذن کے بغیر کسی دوسرے کو نہیں لگ سکتی۔ علماء کی دوسری جماعت اس سے مراد صفر کا مہینہ لیتے ہوئے، اس حدیث کی شرح میں دو باتیں بیان کرتے ہیں۔
(اول) پہلی یہ کہ اس ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں منحوس سمجھا جاتا تھا، جس کی رسول اللہﷺ نے تردید فرمائی۔ جیسا کہ سنن ابو داؤد میں محمد بن راشد کا قول درج ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور صفر پیٹ کی ایسی بیماری کو کہتے تھے۔ جو متعدی ہو، رسول اللہﷺ نے (ان باتوں کی نفی کرتے ہوئے) فرمایا "لَا صَفْرَ" (سنن ابوداؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)
(دوم) دوسری تشریح یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد سے رسم نسئ کی تردید فرمائی چنانچہ اشہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام مالکؒ سے اس بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کو (قتل و غارت اور جنگوں کے لیے) حلال قرار دے دیتے تھے۔ ایک سال وہ اسے حلال قرار دیتے تو دوسرے سال حرام رسول اللہﷺ نے اس رسم نسئ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا "لَا صَفْرَ" (سنن ابوداؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)
علامہ ابن رجب حنبلی (متوفی:795ھ) ماہ صفر سے بدشگونی لینے کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "بہت سے جہلاء ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس مہینہ میں سفر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ صفر کو منحوس گرداننا بدشگونی کی ایک قسم ہے۔ جس سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح دنوں میں سے کسی دن کو منحوس قرار دینا بھی درست نہیں جیسا کہ بدھ کے دن کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ (لطائف المعارف جزء1 صفحہ74)
5، ایک من گھڑت حدیث، اب یہاں ایک یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے ماہ صَفر کی نحوست کی ممانعت فرما دی تو اس بارہ میں توہمات کہاں سے پیدا ہو گئے۔ اس بارہ میں تحقیق سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ علمائے فن حدیث کے نزدیک ایک موضوع روایت ہے۔
مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرٍ، بَشَّرْتُه، بِدُخُوْلِ الْجَنَّةِ
کہ جس نے مجھے ماہ صفر کے گزرنے کی خوشخبری سنائی میں اسے جنت میں داخل ہونے کی بشارت دوں گا۔ اس روایت کو علامہ رضی الدین صغانی (متوفی:650ھ) نے "الموضوعات" میں، علامہ محمد طاہر فتنی (متوفی:986ھ) نے "تذکرة الموضوعات" میں احادیث موضوعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ملا علی قاری (متوفی:1014ھ) نے اس حدیث کو درج کر کے تحریر کیا ہے، لَا أَصْلَ لَهُ یعنی اس کی کوئی اصل نہیں۔ (الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة جزء1 صفحہ337)
6، کوئی کام اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں، دوسرا اہم محرک ان ساری بدعات و توہمات کا خدا تعالیٰ پر کامل توکل نہ ہونا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کو اپنے اللہ پر کامل بھروسہ ہونا چاہئے کہ کوئی بھی کام اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں اور وہی خیر کا منبع ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعۡصِمُکُمۡ مِّنَ اللہِ اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ رَحۡمَۃً ؕ وَلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا۔ (الأحزاب: 18)
ترجمہ: تُو پوچھ کہ کون ہے، جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہے، اگر وہ تمہیں کوئى تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہارے حق میں رحمت کا فیصلہ کرے، اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا نہ کوئى سرپرست پائیں گے اور نہ کوئى مددگار۔ ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے تین دفعہ بدشگونی کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا، کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں، مگر اسے وہم ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے دور کر دیتا ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)
اسی لیے رسول اللہﷺ نے ہر فرض نماز کے بعد ہمیں یہ دعا کرنے کا اسوہ عطا فرمایا، "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَه، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" (صحیح بخاری کتاب الاذان باب الذکر بعد الصلاة)
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر بات پر بڑا ہی قادر ہے۔ اے اللہ کوئی روکنے والا نہیں، جو تو دے اور کوئی دینے والا نہیں، جو تو روک دے۔ کسی صاحب حیثیت (مال، حسب و نسب وغیرہ) کو اس کی حیثیت تیرے مقابل پر فائدہ نہیں دے گی۔ دوسری تشریح یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد سے رسم نسئ کی تردید فرمائی۔
چنانچہ اشہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام مالکؒ سے اس بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کو (قتل و غارت اور جنگوں کے لیے) حلال قرار دے دیتے تھے۔ ایک سال وہ اسے حلال قرار دیتے تو دوسرے سال حرام۔ رسول اللہﷺ نے اس رسم نسئ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا "لَا صَفْرَ" (سنن ابوداؤد کتاب الطب باب فی الطیرة)
علامہ ابن رجب حنبلی (متوفی:795ھ) ماہ صفر سے بدشگونی لینے کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "بہت سے جہلاء ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس مہینہ میں سفر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ صفر کو منحوس گرداننا بدشگونی کی ایک قسم ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح دنوں میں سے کسی دن کو نحس قرار دینا بھی درست نہیں جیسا کہ بدھ کے دن کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ (لطائف المعارف جزء1 صفحہ74)
وہ باتیں جو معاشرے میں غلط مشہور ہو گئی ہوں، اس کا آسان حل یہ ہے، کہ سنی سنائی باتوں پر عمل سے پرہیز کرتے ہوئے ہر بات کی تصدیق علماء کرام سے پوچھ کر عمل کرنی چاہیے، اللہ تعالی ہمیں صحیح معنوں میں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔