Istaqbal e Ramzan Aur Hamari Zimmedarian
استقبال رمضان اور ہماری ذمہ داریاں
رمضان اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، سال بھر کے مہینوں میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ جوں جوں رمضان کے دن قریب آتے جاتے، ذکر و عبادت میں حضور ﷺ کی تڑپ بڑھتی چلی جاتی۔ رمضان سے دو ماہ پیشتر رجب کے مہینہ ہی سے رسالت مآب ﷺ کے ہاں رمضان کا تذکرہ شروع ہو جاتا۔ ایک روایت کے مطابق حضور ﷺ رجب کے مہینہ میں یہ دعا مانگا کرتے۔
اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔ (شعب الایمان للبیھقی جلد 3 صفحہ 375 من طریق ابی عبد اللہ)
یعنی اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔
جب آنحضرت ﷺ شعبان کے مہینہ میں داخل ہوتے، تو یہ ذوق و شوق مزید بڑھ جاتا، اور نبی کریم ﷺ کے شب و روز گویا رمضان جیسا رنگ اختیار کر لیتے۔ گویا رمضان کی برکات سے بھرپور طریق سے فیضیاب ہونے کی خاطر تیاری فرما رہے ہوں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓا بیان فرماتی ہیں۔
كان رسول اللہ ﷺ يصوم، حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم، فما رايت رسول اللہ ﷺ استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته اكثر صياما منه في شعبان۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینہ میں اس قدر نفلی روزے رکھتے کہ ہمیں محسوس ہوتا، گویا آپ مسلسل روزے رکھتے چلے جائیں گے۔ اور جب روزہ رکھنا چھوڑ دیتے، تو ہمیں لگتا کہ آپ مزید روزے نہ رکھیں گے۔ نیز آپ بیان فرماتی ہیں، کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب صوم شعبان)
آپ شعبان میں اس کثرت سے روزے رکھتے، کہ بعض احادیث میں كان يصوم شعبان كله کے الفاظ مرقوم ہیں۔ یہاں کلہ سے نفلی روزوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ رمضان کی عظمت کے باعث آپ شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنا چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ ما رأيت رسول اللہ ﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان۔
یعنی میں نے آنحضور ﷺ کو کبھی لگاتار دو مہینے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے۔
حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ لم يكن يصوم من السنة شهرا تاما إلا شعبان يصله برمضان۔
یعنی نبی اکرم ﷺ سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھتے سوائے شعبان کے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الصیام باب فِيمَنْ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ)
پس یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریق تھا، کہ آپ اس مبارک مہینہ میں داخل ہونے کی تیاری کے پیش نظر نفلی روزے رکھتے چلے جاتے، اور روزے رکھتے رکھتے ہی رمضان کے مبارک ایام میں داخل ہو جاتے۔ حدیث کے ان الفاظ سے یہ غلط فہمی نہیں لگنی چاہیے، گویا آپ شعبان کے بھی مکمل دنوں کے روزے رکھتے تھے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھتے۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپؐ صحابہ کو بھی شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے۔
اَنَّ رسول اللہ ﷺ قال له او لآخر: " اصمت من سرر شعبان؟
قال: لا، قال: فإذا افطرت فصم يومين۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: "تم نے شعبان کے اول میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو"۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الصیام۔ باب صوم سرر شعبان)
(1) نبی کریم ﷺ استقبالِ رمضان کس طرح کرتے تھے؟
آنحضرت ﷺ رمضان کی آمد کے پیش نظر شعبان میں بکثرت روزے رکھتے تھے۔ لیکن اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے، کہ ماہ رمضان کی انفرادیت و عظمت قائم رہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے ہدایت فرمائی ہے کہ
لا يتقدمن احدكم رمضان بصوم يوم او يومين۔
یعنی رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ نہ رکھا جائے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔ بَابُ لاَ يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ)
بعض روایات کے مطابق شعبان کے نصف آخر میں روزہ نہ رکھنے کی تلقین فرماتے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب آدھا شعبان گزر جائے تو پھر روزے نہ رکھو"۔ (سنن دارمی۔ کتاب الصوم۔ باب النَّهْيِ عَنِ الصَّوْمِ بَعْدَ انْتِصَافِ شَعْبَانَ)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ رسول اللہ ﷺ کی منشائے مبارک یہ تھی، کہ شعبان کے مہینہ کو رمضان میں داخل ہونے کے لئے روحانی اور اخلاقی تربیت کرتے ہوئے گزارا جائے۔ لیکن رمضان کی آمد سے قبل روزے رکھنے چھوڑ دئے جائیں، تاکہ فرحت و بشاشت اور صحت مندی کے ساتھ رمضان میں داخل ہوا جا سکے۔
(2) شعبان کے دنوں کی حساب رکھنے کی ہدایت:
شعبان کے دنوں میں رمضان کو پا لینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے، جس میں آنحضرت ﷺ نے رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزرنے کی تحریک فرمائی ہے۔ روایت کے مطابق
عن ابي هريرة، قال: قال رسول اللہ: احصوا هلال شعبان لرمضان
یعنی شعبان کے چاند رمضان کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الصیام عن رسول اللہ ﷺ)
رؤیت ہلال کے پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس حدیث سے یہ بھی مراد ہے، کہ رمضان کی آمد کے پیش نظر شعبان کی تاریخوں کا بھی حساب رکھو۔
(3) قبل از رمضان نبی کریم ﷺ کا جامع خطاب:
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے۔ کہ نبی اکرم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو وعظ فرمایا، اور رمضان کی آمد کی خبر دیتے ہوئے آ پ نے فرمایا: "سنو! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جو بہت بڑا اور بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنا فرض فرمایا، اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا، تو وہ ایسے ہی ہے، جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو، اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا، وہ ایسا ہے، جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے نجات کا سبب ہوگا، اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا، مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔
صحابہ کرامؓ اجمعین نے عرض کیا: یارسول ﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا، کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کا پلا دے، تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی یہ ثواب مرحمت فرما دے گا۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔
جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکرکے بوجھ کو ہلکا کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا، اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، جن میں سے دو چیزیں ﷲ کی رضا کے لیے ہیں، اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو، وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں، کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا، تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائے گا، جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی"۔ (صحیح ابن خزیمۃ: ج 2 صفحہ 911 باب فضائل شہر رمضان- رقم الحدیث 1887)
(4) رمضان کا چاند دیکھنے کی دعا: حضرت ابو جعفرؓ بیان کرتے ہیں، کہ ایک موقع پر جب نبی کریم ﷺ نے رمضان کا چاند دیکھا، تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر یہ جامع دعا فرمائی:
اَللّٰھم اہلہ علینا بالامن والایمان والسلامة والاسلام والعافیة المجللہ، ورفع الاسقام والعون علی الصیام والصلٰوة وتلاوة القرآن، اللھم سلمنا لرمضان وسلمہ لنا، وتسلمہ منا حتی یخرج رمضان وقد غفرت لنا ورحمتنا وعفوتنا۔ (فضائل رمضان لابن ابی دنیا۔ صفحہ 46۔ حدیث نمبر20)
یعنی اے اللہ اسے (رمضان کے چاند کو) ہم پر امن، ایمان، سلامتی اسلام، عظیم عافیت کے ساتھ طلوع فرما۔ اور بیماریوں کو دور کرنے، روزوں، نماز، تلاوت قرآن کے لئے مددگار کے طور پر (طلوع ہو) اے اللہ! ہمیں رمضان کے لئے سلامت رکھیں، اور رمضان کو ہمارے لئے سلامتی کا مؤجب بنا۔ اور اسے ہم سے اس حالت میں واپس لیجیئے، کہ جب رمضان جائے اور تو ہمیں بخش چکا ہو، ہم پر رحم فرما چکا ہو، اور ہم سے درگزر فرما چکا ہو۔
جب حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو دعا کرتے: یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں، جس نے تجھے پیدا فرمایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 10: 400، رقم: 9798)
(5) آسمان پر رمضان کا استقبال کس طرح ہوتا ہے؟
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور خیر و برکت کے طالب ہر شخص کے لئے نیکیوں کا حصول آسان کر دیا جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں۔ قال رسول اللہ ﷺ: "إذا كان اول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت ابواب النار فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة فلم يغلق منها باب، وينادي مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، ولله عتقاء من النار وذلك كل ليلة۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الصیام عن رسول اللہ ﷺ۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)
یعنی جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں، اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق رمضان کا چاند دیکھنے پر آنحضرت ﷺ نے خیر و برکت اور سلامتی کی دعا مانگی، اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:
یاایھا الناس، ان ھذا شہر رمضان، غلت فی الشیاطین و غلقت فیہ ابواب جہنم و فتحت فیہ ابواب الجنان ونادی مناد کل لیلة، ھل من سائل فیعطی، ھل من مستغفر فاغفر لہ۔ (فضائل رمضان لابن ابی دنیا۔ صفحہ46۔ حدیث نمبر 20)
اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس میں شیاطین جکڑ دئے گئے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں، اور اس میں جنت کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے، تاکہ اسے عطا کیا جائے، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے، تاکہ میں اسے بخش دوں۔