Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Hazrat Usman Bin Affan

Hazrat Usman Bin Affan

حضرت عثمان بن عفانؓ

خلیفہ سوم، پیکر جود و سخا سیدنا عثمان غنی ؓ کو حضور اکرم ﷺ نے کئی بار جنت کی بشارت دی اور آپؓ کو "عشرہ مبشرہ" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔

حضرت عثمانؓ کا نام نامی اسم گرامی عثمان بن عفان اور آپ کے دادا کا نسب اس طرح ہے: ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی بنوامیہ۔ آپ کی والدہ کا نام اروی بنت کریز بنت ام حکیم بنت عبدالمطلب تھیں، والد کی طرف سے آپ ﷺ کے چوتھے دادا حضرت عبدالمناف سے جا کر ملتے ہیں اور والدہ کی طرف سے حضور ﷺ کی پھوپھی کے فرزند ہیں۔

آپ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی بڑے مالدار، با اثر، سخی اور تجارت پیشہ تھے۔ آپ واقعہ فیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب ذوالنورین ہے جس کی دو وجوہات ہیں۔ حضور ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ از حد سخی تھے اور آپ کی دوسخاوتیں مشہور تھیں، ایک اسلام قبول کرنے سے پہلے کی اور دوسری اسلام قبول کرنے کے بعد کی اور ان دونوں سخاوتوں کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا تھا۔

آپ زمانہ جاہلیت کی بری عادت سے منزہ اور مبرہ تھے۔ آپ فطری طورپرانتہائی پاکدامن، پارسا اور عفیف تھے آپ کو جھوٹ سے ازحد نفرت تھی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے نہ تو کبھی شراب پی تھی اور نہ ہی چوری، بدکاری اور بے حیائی کے کاموں کا کبھی ارتکاب نہ کیا۔ جب کہ اہل عرب ان چیزوں کے رسیا تھے۔ آپ نے صدیق اکبرؓ کی ہدایت پر اسلام قبول کیا۔ آپ خشیت الہی سے اکثر آبدیدہ رہتے تھے۔ قبرستان سے گزرتے ہی آپ پر گریہ و زاری طاری ہو جاتی تھی اور آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی، جب لوگ اس قدر خوف زدہ ہونے کی وجہ دریافت کرتے تو فرماتے: "حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے اگر اس مرحلہ میں کامیابی ہو جائے گی تو باقی منازل میں بھی کامرانی نصیب ہو گی اگر اس میں مشکل پیش آئی تو باقی تمام مراحل بھی کٹھن ہوجائیں گے"۔

جناب نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کے پاس جس قدر مال تھا اتنا صحابہ کرام میں سے کسی کے پاس بھی نہ تھا۔ آپ بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مال کی کثرت سے تنگ آگیا ہوں آپ دعا فرمائیں اس میں کمی ہوجائے کیونکہ اس کی کثرت کی وجہ سے اطاعت خداوندی میں خلل واقع ہو رہا ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کر نے کا ارادہ فر مایا ہی تھا کہ حضرت جبرائیلؑ حاضر ہو گیے اور اللہ تعالی کا فرمان سنایا کہ حضرت عثمان کے مال میں کمی کی دعا نہ فرمائیں کیوں کہ وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتے ہیں۔ اور ہم اس کے مال میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو حضورؑ کے ساتھ اتنی محبت اور الفت تھی کہ آپ کے حکم اور اشارہ پر اپنا مال قربان فرما دیتے تھے۔

ایک دفعہ آپ جناب نبی اکرم ﷺ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے نہایت ہی شفقت فرماتے ہوئے دعوت قبول فرمائی اور ان کے گھر تشریف لائے۔ تو حضرت عثمانؓ نے میزبانی کے فرائض ادا کرنے کی غرض سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی آمد کی خوشی میں سترہ غلام آزاد کرتا ہوں کیونکہ میرے گھر اور مسجد کے درمیان سترہ قدم کا فاصلہ ہے اور میں ہر ہر قدم کے بدلے ایک ایک غلام آزاد کرتا ہوں۔

حضرت ابو نعیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عثمان میری امت میں سب سے زیادہ باحیا اورسب سے زیادہ معزز ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس امت میں اس کے نبی کے بعد عثمانؓ سب سے زیادہ با حیا ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں حیا کے اعتبار سے عثمان سب سے زیادہ سچا ہے۔

"حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمانؓم احد پہاڑ پر چڑھے۔ پہاڑ کانپ اٹھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا:" اے احد ٹھرجا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں"۔ (بخاری شریف)

اس حدیث پاک میں دو شہیدوں سے مراد حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ ہیں، جن کی شہادت کی خبر اللہ کے محبوب صلی اللہ نے پہلے ہی دے دی تھی۔

"حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھا۔ کہ ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کو کہا حضور ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی خوشخبری سنا دو۔ وہ ابو بکرؓ تھے میں نے انھیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے آگاہ کیا (انہیں جنت کی خوشخبری سنائی) انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور آدمی آیا اس نے بھی دروازہ کھولنے کو کہا نبی پاک ﷺ نے فرمایا ان کے لئے دروازہ کھول دو اور انھیں جنت کی بشارت سناو۔ دروازہ کھولا تو حضرت عمرؓ سامنے موجود تھے۔ میں نے انھیں نبی کریم ﷺ کے فرمان کی خوشخبری سنائی۔ انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور انھیں ایک مصیبت پر (صبر کرنے کی وجہ سے) جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عثمان سامنے موجود تھے میں نے انھیں فرمان رسالت کے مطابق خوش خبریں دیں۔ انھوں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور کہا اللہ ہی مددگار ہے۔ "

ابن سبا یہودی کی سازش سے باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ آخرکار جمعہ کا دن تھا۔ باغیوں نے آپ کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا، دیواریں پھاند کر گھر میں داخل ہوگئے۔ آپ حالت روزہ میں تھے اور قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔ باغیوں سے آپ نے فرمایا:"تم سخت غلطی کر رہے ہو اگر تم نے مجھے شہید کردیا تو مسلمانوں میں تفرقہ پڑ جائے گا۔ " آپ کے فرمان کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے آپ پر کاری وار کرکے 35 ہجری 18ذی الحجہ کی تاریخ میں آپ کو شہید کردیا۔ قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا، اور آپ کے خون کے قطرے قرآن کریم کی آیت "فَسَيَكۡفِیۡكُمُ اللّٰهُ وهُوَالسَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمۡ "پر گرے۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیۡهِ رَاجِعُوۡنَ۔

دلی دعا ہے اللہ تبارک وتعالی اسلام کے اس بطل جلیل کی اس قربانی کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔ اور ہمیں بھی اس گوہر نایاب کی زندگی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

Check Also

Ehtiyat, Magar Wajah Koi Aur?

By Azhar Hussain Bhatti