Hazrat Umar Ka Qabool e Islam
حضرت عمر ؓ کا قبولِ اسلام
اہلِ مکہ کے جبر و ستم بہت بڑھ چکے تھے، صحابہ کرامؓ سرِعام تبلیغ تو درکنار، عبادت بھی نہیں کر سکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ و عبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرامؓم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شے مانگی۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے۔
اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم و ستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر ﷺ نے دعا کی کہ: "اے اللہ! عمر و ابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا۔ " نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام ﷺ کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جا رہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت، کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں، اس نے نئے دین کا اعلان کر کے مکہ والوں میں تفریق کر دی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کر دوں۔
بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا "بنو ہاشم و بنو زہرہ" تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہو چکے ہو، انہوں نے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لے لو، تمہاری بہن و بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارتؓ ان کے بہنوئی و بہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے۔
باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھا گیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خبابؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہو گئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر۔
بہن چھڑانے آئی تو اتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ اچھا! دکھاؤ، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ تم ابھی اس کلام کے آداب سے نا واقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھاؤں گی، انہوں نے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جا رہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جا رہی تھی۔
خباب بن ارتؓ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے عمرؓ! کل رات نبی کریم ﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ
"اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب"
اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ
"اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔ "
اے اللہ! عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔ "اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعائے پیغمبر ﷺ عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہو گی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
"کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک"
یعنی جب کبھی رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو ربّ العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے:
اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)۔
سیدنا خباب بن ارتؓ سے سیدنا عمرؓ کہنے لگے کہ اچھا! تو مجھے بتاؤ محمد ﷺ کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ صفا پہاڑی پر واقع ارقمؓ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمرؓ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرامؓ نے جب دیکھا کہ عمر آ رہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت ﷺ کو بتایا، وہیں اسداللہ و رسول اللہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔
جب سیدنا عمرؓ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام ﷺ پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ ﷺ نے عمرؓ سے فرمایا: " اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کر لو؟ بس یہ سننا تھا کہ فوراً کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اصحابِ رسول (ﷺ) نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار و مشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔
پھر نبی رؤف و رحیم ﷺ نے سیدنا عمرؓ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی:
اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہ، إِیْمَانًا۔ "
"یا اللہ! اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کر دے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھر دے۔ " (مستدرک للحاکم)
قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔ مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: "حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا۔ "
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباسؓما فرماتے ہیں :
"قال رسول اللّٰہ ﷺ: لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ"
یعنی حضور سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا کہ: "جبرئیلؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ آسمان والے عمرؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ " (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعد سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جاؤں اپنے آقا و مولا ﷺ پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمرؓ کو نہیں مانگا تھا، بلکہ دور رس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت و شوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہو گی۔
حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرامؓم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ و رسولہ سیدنا حمزہؓ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، سیدنا عمر فاروقؓ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہؓ پر اور عمرؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی کچھ بولتا۔ اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئیں۔ اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ
"إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔ "
"اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب و لسان پر جاری کر دیا اور وہ فاروق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق و باطل میں فرق پیدا کر دیا ہے۔ " (طبقات ابن سعد)
جناب سیدنا عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ
"واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ"
"اللہ کی قسم! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ اسلام لائے۔ " (مستدرک للحاکم)
عمر اس کائنات میں ایک ہی پیدا ہوا۔ آپ کا خمیر جنت سے آیا اور جنت ہی میں مدفون ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنی شایان شان آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔