Hazrat Abu Bakr Siddiq (9)
حضرت ابوبکر صدیق (9)
آغاز اسلام میں اکثر حضرت ابوبکر صدیقؓ رسول اللہ ﷺ سے عرض کرتے، کیوں نہ ہم لوگوں کے سامنے اپنے ایمان و عقیدہ کا برملا اظہار کریں۔ آخر کب تک ہم چھپتے چھپاتے رہیں گے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بات سن کر صرف اتنا فرماتے۔
"ابوبکر، ابھی ہماری تعداد تھوڑی سی ہے۔ "
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ بار بار رسول اللہ ﷺ سے برملا اظہار کرنے کے بارے میں اصرار کرتے رہتے۔ بالآخر رسول اکرم ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ سارے مسلمان خانہ کعبہ کے اردگرد پھیل گئے، اور اپنے اپنے خاندان والوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اٹھے، اور فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ یہ پہلا خطبہ تھا جو دین اسلام میں پڑھا گیا، اس خطبہ میں اسلام کی دعوت تھی، مشرکین کو بہت ناگوار گزرا۔ وہاں موجود سارے مشرکین سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور مسجد حرام میں موجود دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، اور بری طرح سے مارنے لگے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ مار کھاتے کھاتے زمین پر گر گئے۔ عتبہ بن ربیعہ کا رویہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ گھناؤنا تھا۔ اس فاسق نے اپنے پیوند لگے دونوں جوتوں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو منہ اور پیٹ پر اتنا مارا کہ کثرت خون سے ابوبکر صدیقؓ کا چہرہ تر ہوگیا۔ جب آپ کے قبیلے بنو تیم کے لوگوں کو معلوم ہوا، تو وہ آپ کی مدد کو پہنچ گئے۔ انہوں نے مشرکین کو آپ سے دور کیا، اور آپ کو گھر لے گئے۔ آپ کو اتنی شدید مار پڑی تھی، کہ بنو تیم کو یقین تھا، اب آپ کی موت یقینی ہے۔ بنو تیم آپ کو گھر پہنچا کر مسجد حرام میں واپس آئے اور کہنے لگے۔
"اللہ کی قسم، اگر ابوبکر اس حالت میں مر گئے، تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو بدلے میں قتل کریں گے۔ "
بنو تیم مسجد حرام میں برسرعام یہ دھمکی دے کر سیدھے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئے۔ ابو قحافہ اور بنو تیم کے لوگوں نے بہت کوشش کی، کہ کسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان کھل جائے، اور وہ کچھ بات کریں۔ سارے اسی انتظار میں ان کے اردگرد بیٹھے تھے، جب دن کے آخری پہر آپ کو کچھ افاقہ ہوا، اور زبان کھولی، تو پہلا جملہ جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا۔
"رسول اکرم ﷺ کا کیا حال ہے؟ اور وہ کیسے ہیں؟"
جب آپ نے یہ کہا تو قوم کے لوگوں کو قدرے غصہ بھی آیا، اور آپ کو ملامت کرتے ہوئے، وہاں سے نکل گئے۔ جب بنو تیم آپ کے پاس سے نکل گئے، تو صرف آپ کی ماں آپ کے پاس رہ گئیں۔ وہ بیٹے سے اصرار کرتی رہی، کہ کھانا کھا لو، لیکن آپ اپنی ماں سے صرف یہی پوچھتے رہے۔
"رسول اکرم ﷺ کا کیا حال ہے؟ وہ کیسے ہیں؟
ماں نے جوب دیا، بیٹے اللہ کی قسم! مجھے تیرے ساتھی کے بارے میں کوئی علم نہیں، وہ کس حال میں ہیں، اور ابھی کہاں ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ماں سے کہا، ام جمیل فاطمہ بنت خطاب کے پاس جاؤ، اور اس سے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں دریافت کرو، کہ وہ کہاں ہیں، اور کس حال میں ہیں؟ بیٹے کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ماں کھڑی ہوئی، اور ام جمیل کے پاس پہنچ کر کہا، میرا بیٹا ابوبکر تم سے محمد بن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، کہ وہ کہاں ہیں، اور کس حال میں ہیں۔
ام جمیل نے جواب دیا، نہ تو مجھے ابوبکر کے بارے میں کچھ معلوم ہے، اور نہ ہی محمد بن عبداللہ کے بارے میں۔ ہاں، اگر تم چاہو، تو میں تمہارے بیٹے کو دیکھنے چلوں؟ ام الخیر نے کہا، جی چلیں۔ ام جمیل جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس پہنچی، تو آپ کی حالت شدت مرض سے ناگفتہ بہ تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا، فسق و کفر میں ڈوبی ہوئی آپ کی قوم نے آپ کو تکلیف دی ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ ضرور ان ظالموں سے انتقام لے گا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی زبان کھلی اور کہا۔
"رسول اکرم ﷺ کا کیا حال ہے؟ اور وہ کیسے ہیں؟"
ام جمیل نے کہا، یہ آپ کی ماں موجود ہیں، میں اگر کچھ بتاؤں گی، تو وہ بھی سن لیں گی۔ آپ نے کہا کوئی بات نہیں، تمہیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ام جمیل نے بتایا۔
"رسول اکرم ﷺ بالکل صحیح سالم اور خیریت سے ہیں۔ "
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا، وہ اب کہاں ہیں؟ ام جمیل نے کہا دار ارقم میں ہیں۔ ابوبکر کہنے لگے۔
"میں نے اللہ سے عہد کر لیا ہے کہ جب تک میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو جاؤں، نہ کچھ کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا۔ "
ام جمیل اور آپ کی والدہ نے آپ کا اصرار دیکھا، تو وہ تھوڑی دیر رکی رہیں۔ پھر جب انہوں نے دیکھا، کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں، اور راستہ خالی پڑا ہے، تو وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو سہارا دیتے ہوئے، رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ رسول اکرم ﷺ کی جب نگاہ مبارک حضرت ابوبکر صدیقؓ پر پڑی، تو آپ ان کی طرف جھک پڑے، اور بوسہ دیا۔ دوسرے مسلمان بھی ابوبکر کی طرف جھک پڑے۔ اس منظر کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو بڑی کوفت ہوئی، اور آپ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مگر اس حالت میں بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے رسول اکرم ﷺ سے اپنی بے لاگ محبت کا ثبوت دیا اور عرض کرنے لگے۔
"اے اللہ کے رسول ﷺ، میرے ماں باپ آپ پر قربان (آپ ﷺ صحیح سالم ہیں تو پھر) مجھے کوئی پرواہ نہیں، صرف اتنی تکلیف ہے، کہ فاسق نے میرے چہرے پر جوتا مارا، اور یہ میری ماں ہے، جو بلاشبہ اپنے بیٹے کے حق میں مہربان اور وفادار ہے۔ آپ کی ہستی مبارک ہے، آپ میری ماں کو دعوت الی اللہ دیں، اور اس کے حق میں دعائے خیر فرمائیں۔ ممکن ہے، کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کو آپ ﷺ کی دعوت کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچا دے۔ "
چنانچہ سیدنا ابوبکر کی خواہش پر رسول اکرم ﷺ نے آپ کی ماں کے لیے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا، اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ماں مسلمان ہوگئیں۔
(صحابہ کرام کی عظیم مائیں تالیف شیخ محمد عظیم حاصل پوری صفحہ 5 تا 9)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی اسی روز ایمان لائے۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد دوم صفحہ 291)
اس واقعہ کے بعد رسول اکرم ﷺ کی نظر میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وقعت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور ﷺ کے خاص راز دار اور محبوب بن گئے۔
اہل سیر کا بیان ہے، کہ حضور اکرم ﷺ روزانہ دو مرتبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے جاتے۔ ہجرت مدینہ تک آپ کا یہی معمول رہا۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ سے مروی ہے، کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین اسلام پر پایا، اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جس میں رسول اللہ ﷺ روزانہ دو مرتبہ صبح و شام ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 53)۔