Hazrat Abu Bakr Siddiq (30)
حضرت ابوبکر صدیق (30)
جب حضرت صدیقِ اکبرؓ نے حضرتِ بلالؓ کو بہت مہنگی قیمت پر خرید کر آزاد کیا، تو کفار کو حیرت ہوئی، اور اُنہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایسا کیوں کیا؟ شاید بلالؓ کا اُن پر کوئی اِحسان ہوگا، جو اُنہوں نے اتنی مہنگی قیمت دے کر انہیں خریدا، اور آزاد کر دیا۔
اِس پر یہ آیات قرآنی نازل ہوئیں۔
(وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(17)الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَه، یَتَزَكّٰىۚ(18)وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَه، مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ(19)اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ(20)وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠(21)
ترجمہ: اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگار کو اس آگ سے دور رکھا جائے گا، جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے، اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں، جس کا بدلہ دیا جانا ہو، صرف اپنے سب سے بلند شان والے ربّ کی رضا تلاش کرنے کے لیے اور بیشک قریب ہے، کہ وہ خوش ہو جائے گا۔ (پ30، اللیل:17تا21)
اور اِن میں یہ ظاہر فرما دیا گیا، کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ فعل محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے، کسی کے اِحسان کا بدلہ نہیں، اور نہ اُن پر حضرتِ بلالؓ وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔ (تفسیرِ خازن، 4/385)
حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت بلالؓ کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کو اُن کے اسلام کی وجہ سے خرید کر آزاد کیا۔ (اس کی مکمل تفصیل ہم حضرت ابوبکر صدیقؓ انسائیکلوپیڈیا نمبر 8 میں تحریر کر چکے ہیں)۔
مفسرین کا اِجماع:
امام علی بن محمد خازِنؒ فرماتےہیں، تمام مفسرین کے نزدیک اِس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد "حضرت ابوبکر صدیقؓ" ہیں (اور یہ آیت آپؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔) (تفسیرِ خازن، 4/384)
اِن آیاتِ مبارکہ میں افضل الناس بعد الانبیاء، سیدنا صدیق اکبرؓ کے فضائل و مناقب مذکور ہیں۔ اُن میں سے بعض پیش خدمت ہیں۔
(1) پہلی فضیلت:
دنیا میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے کوئی گناہ سَرْزَد نہیں ہوا۔ کیونکہ دنیا میں ایسے بہت سے متقی گزرے ہیں، جنہوں نے کبھی کسی گناہ کا اِرتکاب نہیں کیا، یعنی متقین کی اعلیٰ قسم میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں، تو جو سب سے بڑے متقی ہیں، اُن سے گناہ کا ارتکاب کیسے ہو سکتا ہے، پھر آپؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والوں پر بھی یہ فضیلت واضح ہے، کہ آپؓ کی مبارک زندگی میں کسی گناہ کا اِرتکاب نظر نہیں آتا، بلکہ نیکی کے کاموں پر دوسروں سے سبقت لے جانے کا پہلو ہی غالب دکھائی دیتا ہے۔
(2) دوسری فضیلت:
سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو جہنم سے بہت دور رکھا جائے گا، جیسا کہ اس آیت ہی میں فرمایا، (وَ سَیُجَنَّبُهَا)
ترجمہ: "عنقریب اُس کو آگ سے دور رکھا جائے گا۔ "
نیز صدیقِ اکبرؓ تو ویسے بھی اُن ہستیوں میں سے ہیں، جن کے بارے میں فرمایا گیا، کہ جہنم کی معمولی سی آہٹ تک نہ سنیں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
(اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(101) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(102) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕهٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(103)
ترجمہ: بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہو چکا ہے، وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ اُس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے، اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی، اور فرشتے اُن کا اِستقبال کریں گے، کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
(پ17، الانبیاء: 101 تا 103)
(3) تیسری فضیلت:
جہنم سے دور رکھے جانے میں اُن کے لیے جنّتی ہونے کی بشارت بھی ہے، کیونکہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہیں، اُن میں سے بعض کے لیے تو مقامِ اَعراف ہے، جو جنت و جہنم کے درمیان ہے، لیکن اہلِ تقویٰ میں جسے جہنم سے بچنے کی بشارت ہو، اُس کے لیے دوسرا مقام جنت ہی ہے۔
قرآنِ مجید میں فرمایا: (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ)
ترجمہ: تو جسے آگ سے بچا لیا گیا، اور جنت میں داخل کر دیا گیا، تو وہ کامیاب ہوگیا۔
(پ4، آل عمران: 185)
پھر خصوصاً تقویٰ نَفْس کی بری خواہشات سے بچنے ہی کا نام ہے، ان صفات کے حاملین کیلئے جنت کی صریح بشارت ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا
(وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ (40) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ (41)۔
ترجمہ: اور وہ جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا، اور نفس کو خواہش سے روکا، تو بیشک جنت ہی ٹھکانہ ہے۔
(پ30، النّٰزِعٰت:40، 41)
بلکہ جَنَّت کی اصل تیاری ہی متقین کیلئے ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا
(وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُۙ- اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ (133)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو، جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ (پ4، آل عمران:133)
(4) چوتھی فضیلت:
سیّد المرسلین ﷺ کی امت میں سب سے بڑے متقی اور پرہیز گار حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں کہ (الْاَتْقَىۙ) کا لفظ باتفاقِ امت سیدنا صدیق اکبرؓ کیلئے ہے۔
(5) پانچویں فضیلت:
آیت قرآنی سے آپ کا تمام امت سے افضل ہونا بھی معلوم ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے بڑا متقی قرار دیا، اور سب سے بڑے متقی کو اللہ ربّ العالمین نے خود ہی سب سے افضل و اکرم قرار دیا ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا:
(اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْؕ)
ترجمہ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔ (پ26، الحجرات:13)
نیز تقویٰ کا مقام دل ہے، جیسا کہ نبیِّ کریم ﷺ نے فرمایا۔
ترجمہ: ایمان دِل سے متعلقہ مخفی چیز ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور دو مرتبہ فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، 6/159)
جب تقویٰ کا مقام دل ہے، تو صدیق اکبرؓ کے مبارک دل کا حال سنیے، امام غزالی علیہ الرَّحمہ نے بطور حدیث مرفوع اور امام ترمذی نے قولِ ابوبکر بن عبداللہ المُزَنی کے طور پر نقل کیا، فرمایا:
ما فضلكم ابوبكر بكثرة صيام ولا صلاة ولكن بسر وقر في صدره
یعنی ابوبکر تم لوگوں سے نماز اور روزے کی کثرت کی وجہ سے آگے نہیں نکلے، بلکہ اُس چیز کی وجہ سے آگے نکلے ہیں، جو ان کے دل میں قرار پکڑے ہوئے ہے۔ (یعنی قوتِ ایمانی، معرفتِ ربانی اور تقویٰ و خشیتِ الٰہی)
(احیاء العلوم، امام غزالی، 1/100)
آپؓ کے تمام صحابہؓم سے افضل ہونے پر اہلِ سنت کا اِجماع ہے، چنانچہ عقائدِ نسفیہ میں ہے۔
افضل البشر بعد نبينا ابو بكر الصديق ثم عمر الفاروق ثم عثمان ذوالنورين ثم علي رضي اللہ عنهم وخلافتهم على هذا الترتيب ايضا۔
یعنی ہمارے نبی ﷺ کے بعد (امّتِ محمدیہ میں) سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر فاروق پھر عثمان ذوالنورین پھر علی المرتضیؓم اجمعین ہیں اور اُن کی خلافت بھی اِسی ترتیب سے ہے۔
(العقائد النسفیۃ مع شرحہ للتفتازانی، ص321)
(6) چھٹی فضیلت:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تمام صَدقات و خیرات قبول اور اعلیٰ درجے کے اِخلاص پر مبنی ہیں، اِس کی دلیل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے راہِ خدا میں دئیے گئے، ہر مال کے متعلق فرمایا کہ اس کا مقصد دِکھاوا اور ریاکاری نہیں، بلکہ (یَتَزَكّٰىۚ) ہے، یعنی "تاکہ اسے پاکیزگی ملے" اور اللہ تعالیٰ اچھی نیت والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔
چنانچہ فرمایا: (اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ (120)
ترجمہ: بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔
(پ11، التوبہ: 120)
پھر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے مال خرچ کرنے پر بشارت دی، کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے گا، چنانچہ فرمایا (وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠) ترجمہ: بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہو جائے گا۔ (پ30، اللیل:21)
نیز آپؓ کے اعلیٰ درجے کے اخلاص کی گواہی اللہ تعالیٰ نے یوں دی ہے، فرمایا۔
(اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ)
ترجمہ: صرف اپنے سب سے بلند شان والے ربّ کی رضا تلاش کرنے کے لیے (وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے)۔ (پ30، اللیل:20)
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بطورِ خاص خوش کر دینے کا مژدہ سناتے ہوئے فرمایا: (وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى) اور بیشک قریب ہے کہ وہ خوش ہو جائے گا۔ یعنی بیشک قریب ہے کہ ابوبکرؓ اُس نعمت و کرم سے خوش ہو جائیں گے، جو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں عطا فرمائے گا۔
(خازن، 4/385)
اس بشارت میں ایک خوبصورت پہلو یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرمایا۔
(وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ (5)
اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا ربّ تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔ (پ30، والضحیٰ:5)
اور صدیق اکبرؓ کے لیے فرمایا:
(وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى)
اور بیشک قریب ہے، کہ وہ خوش ہو جائے گا۔ اور اللہ تعالٰی کا طرزِ تکلم نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ دونوں میں سے یکساں ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی شایانِ شان آپ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔