Hazrat Abu Bakr Siddiq (27)
حضرت ابوبکر صدیق (27)
(14) خشیت الہٰی۔
خشیت الہٰی جو تمام عبادات و اعمال کی روح ہے، اس کا غلبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر اس قدر تھا، کہ آپ ہر وقت محاسبہ آخرت کے خوف سے لزراں و ترساں رہتے تھے۔ بات بات پر سرد آہیں بھرتے تھے، اس لیے آپ کا لقب "اواہ منیب" یعنی بہت آہیں بھرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا پڑ گیا تھا۔ کبھی کسی سرسبز درخت کی طرف دیکھتے تو فرماتے، کاش میں درخت ہوتا، تاکہ محاسبہ آخرت سے نجات پا جاتا۔
(سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 352 تا 355)
(15) سلام کرنے میں پہل۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عادت تھی، کہ جب باہر نکلتے، تو جہاں تک ہو سکتا تھا، لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کے سلام کا جواب اضافہ کر کے دیتا، تو آپ دوبارہ اس میں مزید اضافہ کر کے دوبارہ اسلام کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے، کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سواری پر بیٹھ کر جا رہے تھے۔ ہمیں راستے میں کچھ لوگ ملے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا اسلام علیکم ان لوگوں نے جواب دیا، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ ان لوگوں نے جواب دیا، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا، آج یہ لوگ ہم سے بڑھ گئے۔
(17) توکل علی اللہ۔
توکل علی اللہ، یہ وصف قوت ایمان کا عکاس ہوتا ہے، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ میں یہ وصف کامل درجہ موجود تھا۔ آپ ابن دغنہ کی پناہ میں تھے، اور اس شرط پر کہ آپ اندر مکان میں اپنی عبادت کریں گے، لیکن جب آپ نے اپنے صحن میں مسجد بنائی، تو قریش مکہ نے ابن دغنہ سے شکایت کی، جس پر ابن دغنہ نے کہا، کہ اے ابوبکر شرط پر عمل کریں، نہیں تو میں پناہ واپس لیتا ہو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بےدھڑک جواب دیا، کہ تم کو اپنی پناہ مبارک ہو، میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔
آپ کی زندگی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جب حالات فیصلوں کی اجازت نہیں دیتے تھے، لیکن آپؓ نے اللہ پر توکل کر کے وہ فیصلے کیے، جس سے آپؓ کا اللہ پر توکل ظاہر ہوتا ہے۔ ان میں جیش اسامہؓ کی روانگی اور فتنہ ارتداد اس کی مثالیں ہیں۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ373 اور 374)
(19) مہمان نوازی۔
مہمان کو خوش دلی اور مسرت سے خوش آمدید کہنا، اور ان کی خدمت کرنا، ایک نہایت اعلیٰ اخلاقی وصف ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ میں یہ وصف کمال درجہ تک پہنچا ہوا تھا۔ آپ نہ صرف اصحاب صفہ کو وقتاً فوقتاً اپنا مہمان بناتے رہتے تھے، بلکہ اور بھی جو مہمان آپ کے گھر آ جاتے، اس کی خاطر مدارات کرتے تھے۔ حضرت ابوزر غفاریؓ جب پہلی بار اپنے وطن سے مکہ مکرمہ آئے، اور سرور دو عالم ﷺ کا شرف نیاز حاصل کیا، تو بارگاہ نبوی ﷺ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی موجود تھے۔
آپؓ نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی، کہ آج کی رات مجھے حضرت ابوزر غفاریؓ کو اپنا مہمان بنانے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے منظور فرما لیا، اور رات کو خود حضرت ابوزرؓ کو ساتھ لے کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر ؓصدیق نے مہمانان عزیز کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ کھانے کے علاوہ طائف کے منقے بھی پیش کیے۔