Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Hazrat Abu Bakr Siddiq (26)

Hazrat Abu Bakr Siddiq (26)

حضرت ابوبکر صدیق (26)

(12) حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اولاد سے محبت۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنی اولاد سے بے حد محبت تھی، اور آپ اپنے قول و عمل سے اکثر اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ آپؓ کے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ الگ مکان میں رہتے تھے، لیکن ان کے گھر کا خرچ آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی اسماء بنت ابی بکرؓ کی شادی حضرت زبیر ابن عوامؓ سے ہوئی تھی۔ زبیر بن عوامؓ شروع شروع میں بہت تنگ دست تھے۔

گھر میں کوئی خادم یا خادمہ کی رکھنے کی قدرت نہ تھی، اس لیے حضرت اسماءؓ کو بہت کام کرنا پڑتا تھا، پانی بھرتی، ڈول سیتی، اور کافی فاصلے سے کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لاتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کو چارہ بھی کھلاتی تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ان کے حالات کا علم ہوا، تو انہوں نے ایک خادم بھیج دیا، جو گھوڑے کو چارہ کھلاتا، اور اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں، کہ خادم بھیج کر گویا ابا جان نے مجھ کو آزاد کر دیا۔

ہجرت کے شروع میں مہاجرین کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی، اور آپؓ بخار میں مبتلا ہوگئی، اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کو بھی بخار ہوا۔ حضرت براء بن غازب انصاریؓ سے روایت ہے، کہ اسی زمانے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے میرے والد سے اونٹ کا کجادہ خریدا، اور میں اس کو اٹھا کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ عائشہ صدیقہؓ کو بخار ہے، اور وہ بستر پر ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کے پاس گئے۔ جھک کر ان کے رخسار کو چوما اور پوچھا، بیٹی تمہارا کیا حال ہے، اب طبیعت پہلے سے کچھ بہتر ہے؟ جی ابا حضور۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نام نواح مدینہ میں ایک جاگیر ہبہ کر دی تھی، لیکن وفات سے پہلے خیال آیا، کہ اس سے دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہوگی۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا، بیٹی وسعت اور غریبی دونوں حالتوں میں تم مجھ کو بہت محبوب رہی ہو، میں چاہتا ہوں کہ جو جاگیر میں نے تمہیں دی ہے، اس میں اپنے بہن بھائیوں کو بھی شریک کر لو۔ سعادت مند بیٹی نے کہا، بسر و چشم۔ چنانچہ والد گرامی کی وفات کے بعد انہوں نے حسب وصیت وہ جاگیر تقسیم کر دی۔

حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ کو اپنی بیوی عاتکہ سے نہایت محبت تھی، اور ان کی وجہ سے انہوں نے جہاد پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ یہ برداشت نہ کر سکے تھے۔ انہوں نے حضرت عبد اللہؓ کو حکم دیا، کہ بیوی کو طلاق دے دو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل تو کر دی لیکن عاتکہ کے فراق میں بڑے پردرد اشعار کہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے کانوں تک یہ اشعار پہنچے، ان کا دل نرم گیا، اور حضرت عبد اللہؓ کو رجوع کرنے کی اجازت دے دی۔

(13) بچوں سے پیار۔

جس طرح سرور عالم ﷺ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے، اس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی بچوں پر بہت شفیق تھے، اور اس میں آپؓ اپنے اور بیگانے کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے۔ بچے بھی آپ سے اس قدر مانوس ہو گئے تھے، کہ جب آپ محلے میں داخل ہوتے، تو بچے بابا بابا کہہ کر دوڑتے آتے، اور آپ سے لپٹ جاتے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہر ایک سے پیار کرتے، کسی کو گود میں اٹھاتے، کسی کو کندھے پر بٹھاتے، اور کسی کا منہ اور سر چومتے۔ مجاہدین کو جہاد پر روانہ کرنے لگتے، تو ان کو سختی سے تاکید کرتے، خبردار کسی بچے کو نہ مارنا۔

غزوہ احد کے بعد ایک صحابی حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملنے گئے، تو دیکھا کہ آپ لیٹے ہوئے ہیں، اور ایک ننھی بچی کو سینے پر بیٹھا رکھا ہے، اور نہایت محبت سے بار بار اس کو چوم رہے تھے، اور پیار کر رہے تھے۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا، اے ابوبکر صدیقؓ یہ بچی کون ہے؟ فرمایا، یہ حضرت سعد بن ربیع انصاریؓ کی بیٹی ہے، جسے خدا تعالیٰ نے بہت بلند مرتبہ عطا کیا۔ اس نے (غزوہ احد میں) رسول اللہ پر اپنی جان قربان کر دی، اور قیامت کے دن وہ حضور اکرم ﷺ کے مداح خواہوں میں شمار کیا جائے گا۔ یہی بچی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اوائل خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ نے ازراہ محبت چادر بچھا دی، اور بڑی شفقت سے ان کو اس پر بٹھایا۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 323 تا 328)

Check Also

Mehar o Wafa Ke Baab

By Ali Akbar Natiq