Hazrat Abu Bakr Siddiq (25)
حضرت ابوبکر صدیق (25)
(8) حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پریشان حال رہنا پسند نہ تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ اگرچہ راہ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے تھے، اور آپؓ کی بود و باش، لباس اور غذا بھی بہت سادہ تھی، لیکن آپ کو تَقَشُّف (درویشانہ زندگی گزارنا) پسند نہ تھا۔ تجارت سے خوب کماتے تھے، اور جو آمدنی ہوتی تھی، راہ خدا میں دینے کے علاوہ اس کو اپنی ضروریات زندگی پر بھی صرف کرتے تھے۔ گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادم اور ایک روایت کے مطابق خادمہ بھی تھی۔
(9) خود داری۔
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ انتہا درجے کے خود دار تھے۔ آپ اگرچہ دوسروں کے معمولی سے معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر دیتے تھے، لیکن اپنا کام کسی دوسرے سے لینے سے اجتناب کرتے تھے، اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ اپنا ہر کام خود کریں۔ اگر اونٹ پر سوار ہو کر کہیں جا رہے ہوتے، اور اونٹ کی نکیل ہاتھ سے گر پڑتی، تو خود اتر کر نکیل اٹھاتے۔ ایک دفعہ لوگوں نے عرض کی آپ خود کیوں اتنی زحمت اٹھاتے ہیں، ہم سے اس معمولی کام کیلئے کیوں نہیں کہتے؟ فرمایا۔
"میرے حبیب ﷺ کا مجھ کو حکم ہے، کہ میں لوگوں سے کسی شے کا سوال نہ کروں"
سفر میں کسی سے کوئی کھانے پینے کی چیز لینے کی ضرورت پڑ جاتی، تو اس کا معاوضہ ادا کرتے۔
(10) نظافت۔
آپؓ کے مزاج میں بےحد نظافت تھی۔ صفائی اور طہارت کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہجرت کے سفر میں ایک چٹان کے سایہ میں کچھ دیر کے لیے قیام کیا، تو آپؓ نے پہلے اپنے ہاتھ سے زمین ہموار کی، پھر اس پر کپڑا بچھا کر حضور اکرم ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ آرام فرمائیں، میں آس پاس کی زمین صاف کیے دیتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ سو گئے، اور آپ زمین صاف کرنے لگے۔ اتنے میں ایک چرواہا بکریوں کا ریوڑ لیے وہاں آ گیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس سے دودھ کی فرمائش کی۔ جب وہ دودھ دوہنے لگا، تو آپ نے چرواہے سے کہا، پہلے بکری کے تھن گرد سے صاف کر لو۔ جب اس نے کر لیے، تو پھر فرمایا، اب اپنے ہاتھ صاف کرو۔ جب اس نے ہاتھ صاف کیے، تو تب اس کو دوہنے کی اجازت دی۔ دودھ، پانی وغیرہ ڈالنے کے لیے آپؓ نے جو برتن ساتھ لیا تھا، اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا تھا، تا کہ برتن کے اندر گرد و ریت وغیرہ نہ جائے۔
(11) بے تعصبی۔
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طبیعت میں کسی قسم کے تعصب یا قومی عصبیت کا شائبہ تک نہ تھا۔ غزوہ حنین میں ایک کافر کو حضرت ابو قتادہ انصاریؓ نے قتل کیا تھا، لیکن اس کے سامان پر ایک قریشی نے قبضہ کر لیا تھا۔ جب حضرت ابو قتادہؓ نے سامان کا مطالبہ کیا، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کی حمایت کی اور فرمایا، کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، کہ اللہ کا شیر مال سے محروم رہے، اور قریش کی ایک چڑیا مفت میں مزے اڑائے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سچ کہا، اور مقتول کافر کا سامان حضرت ابو قتادہؓ کو مل گیا۔
شام پر لشکر کشی ہوئی، تو مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے، ہدایت کی کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادات کے لیے وقف کر رکھا ہے، ان سے کوئی تعرص نہ کرنا۔ دشمن کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، اور کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا۔ وفات سے قبل اپنا جانشین نامزد کرنے لگے، تو اپنے قبیلے بنو تیم کو بالکل نظر انداز کر کے حضرت عمر فاروقؓ کو نامزد کیا۔ (حضرت عمر فاروقؓ قبیلہ بنو عدی سے تھے)(سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی)۔