Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Hazrat Abu Bakr Siddiq (23)

Hazrat Abu Bakr Siddiq (23)

حضرت ابوبکر صدیق (23)

(1) عشق رسولﷺ

رسالت مآب ﷺ نے جب دعوت حق کا آغاز فرمایا، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سب سے آگے بڑھ کر اس پر لبیک کہا۔ جب نبوت کے چوتھے سال دعوت عام کا حکم خداوندی نازل ہوا، تو مشرکین کے قہر و غضب کا آتش فشاں پوری شدت سے پھٹ پڑا۔ مشرکین نے اہل حق کو لزرہ خیز مظالم کا نشانہ بنایا، جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی شامل تھے۔ سرور عالمﷺ نے جب شب معراج کی صبح کو کفار کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا، تو انہوں نے اسکا مذاق اڑایا، حضرت ابوبکر صدیقؓ باہر تھے۔ ابوجہل نے ان سے جا کر کہا، کہ تمہارے دوست اس قسم کی ناقابل یقین باتیں کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بلا تامل جواب دیا: "نبی کریمﷺ نے سچ فرمایا، اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں"۔

سفر ہجرت میں آپ کو اپنے آقا و مولا کی رفاقت کا وہ مہتم بالشان شرف حاصل ہوا، کہ بارگاہ الٰہی کی طرف سے "ثانی الثنین" کے لازوال اور بے مثال لقب سے نوازے گئے۔ اس موقع پر حضور اکرم ﷺ کی رفاقت کوئی آسان کام نہیں تھا، بلکہ اپنی جان پر کھیلنا تھا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سفر ہجرت میں جس طرح نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائی، وہ بھی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے سفیر عروہ بن مسعود نے نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہو کر کہا، کہ اے محمد (ﷺ) یہ جو تمہارے ارد گرد بھیڑ ہے، اگر تم پر کوئی نازک وقت آیا، تو تمہاری حمایت کا دم بھرنے والے آناً فاناً چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ پاس حضرت ابوبکر صدیقؓ کھڑے تھے، سراپہ جلال ہو کر کہا، کہ ہم اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ جا اپنا کام کر اور خوب ان کی کلاس لی۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی کا مسئلہ بنا، کیونکہ اس وقت تمام عرب میں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوگیا تھا۔ تب کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چاہتے تھے، اس مہم کی روانگی ملتوی کر دی جائے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابوبکر صدیقؓ کی جان ہے، اگر مجھے جنگل کے درندے اٹھا کر لے جائیں، تب بھی میں جیش اسامہ کو روانہ کر کے رہوں گا، کیونکہ اسے خود نبی کریم ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ اگر مدینہ میں میرے سوا کوئی بھی متنفس باقی نہ رہے، تو بھی حضور اکرم ﷺ کے حکم کی تعمیل ہو کر رہے گی"۔

(2) ادب و احترام نبوی ﷺ

حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریم ﷺ سے بے پناہ محبت اور عقیدت کے بنا پر جس قدر ادب و احترام کرتے تھے، وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ہمیشہ دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے، اور بات بات میں کہتے تھے، " اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ " سفر میں حضور اکرم ﷺ کے ہمرکاب ہوتے، تو آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھتے، اور آپ استراحت فرما ہوتے، تو آپ کو سوتے سے جگاتے نہ تھے، جب تک کہ رسالت مآب ﷺ خود نیند سے بیدار نہ ہو جاتے۔

سفر ہجرت میں ایک مقام پر حضور اکرم ﷺ کو سوتا چھوڑ کر دودھ کی تلاش میں نکلے، جب واپس ہوئے، تو خود بیان فرماتے ہیں، کہ میں نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ سفر ہجرت کے واقعہ میں قباء آتے ہوئے، جب حضور اکرم ﷺ پر دھوپ پڑنے لگی، تو آپ کو دھوپ سے بچانے کے لیے چادر تان کر کھڑے ہو گئے۔ یہ چند مثالیں پیش کی ہیں، ورنہ تاریخ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے جزبہ عشق رسول ﷺ اور احترام نبوی ﷺ سے بھری پڑی ہے۔ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر صدیقؓ پر اپنی شایان شان رحمتیں نازل فرمائے۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar