Hazrat Abu Bakr Siddiq (18)
حضرت ابوبکر صدیق (18)
آٹھ روز کے سفر کے بعد آنحضرت ﷺ آٹھ ربیع الاول سنہ 14 نبوی کو دوپہر کے وقت قباء کے قریب پہنچے۔ قباء مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے، اور وہ مدینہ کا ایک محلہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ وہاں قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے لوگ بکثرت آباد تھے، اور روشنی اسلام سے منور ہو چکے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ قباء پہنچے، تو تمام قباء میں جوش و مسرت کا ایک شور مچ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ خیال فرما کر کہ لوگوں کو رسالت مآب ﷺ کے پہنچانے میں شبہ نہ ہو، کہ رسول اللہ ﷺ کون سے ہیں۔ فوراً آپ ﷺ کے پیچھے آ کر چادر سے آپ کے اوپر سایہ کیا، جس سے آقا اور خادم کی پہچان بآسانی ہونے لگی۔
آپ قباء میں پیر کے دن داخل ہوئے، اور جمعہ تک یہیں مقیم رہے۔ رسالت مآب ﷺ حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مکان میں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت حبیب بن اسافؓ کے مکان میں فروکش ہوئے۔ حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مکان میں نبی کریم مجلس فرماتے۔ یعنی لوگ حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مکان میں آ کر نبی کریم ﷺ کی زیارت کرتے، اور رسالت مآب ﷺ کے گرد مجتمع رہتے۔ قباء میں آپ ﷺ نے چند دنوں میں ہی ایک مسجد کی بنیاد رکھی، اور یہ سب سے پہلی مسجد تھی، جو اسلام میں بنائی گئی۔ اس کے بعد 12 ربیع الاول جمعہ کے روز آپ قباء سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ (تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 125 تا 127)
وہ جگہ جہاں نبی کریم ﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی، رافع بن عمر کے دو یتیم بیٹوں سہل اور سہیل کی مالکیت تھی، اور وہ دونوں اسعد بن زرارہ کے زیر کفالت تھے، اس جگہ کھجوریں فروخت کرتے تھے، آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے وہاں مسلمان نماز پڑھتے تھے، اور اسعد بن زراہ ان کی امامت کرتے تھے۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے پوچھا، یہ زمین کس کی ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ سہل اور سہیل کی مالکیت ہے۔ اسعد اور اس کے زیر کفالت بچوں نے دل و جان سے وہ زمین بلا قیمت دے دی، لیکن آنحضرت ﷺ نے اسے قبول نہیں فرمایا، بلکہ دس مثقال سونا کے عوض اسے خریدا، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حوالے کیا۔ انہوں نے وہ قیمت ادا کر دی۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی سوم صفحہ 29)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مال سے اس جگہ کی قیمت رسالت مآب ﷺ نے ادا فرمائی۔ (سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 181)
رسالت مآب ﷺ اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ہیں۔ اس کی تعمیر میں نبی کریم ﷺ نے دیگر صحابہ کرام کے شانہ بشانہ کام کیا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسجد کی تعمیر میں پیش پیش رہے، اور اپنی کمر پر پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ ابتدا میں مسجد نبوی انتہائی سادہ بنائی گئی۔ دیواریں پتھر اور گارے سے بنائی گئیں، اور چھت کھجور کے پتوں کی بنائی گئی۔ (سیرت سیدنا ابوبکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 41)