Hazrat Abu Bakr Siddiq (17)
حضرت ابوبکر صدیق (17)
چوتھے دن رسول اکرم ﷺ یکم ربیع الاول پیر کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبداللہ بن اریقط جس کو راہنمائی کے لیے کرایہ پر آنحضرت ﷺ نے نوکر رکھ لیا تھا، وہ طے شدہ فیصلے کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھے۔ رحمت اللعالمین ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، دوسری پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور آپ کے غلام عامر بن فہیرہؓ بیٹھے۔ اور عبداللہ بن اریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا، اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔
(سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 165)
ام معبد کی بکری:
دوسرے روز مقام غدیر میں ام معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کے مکان پر آنحضرت ﷺ کا گزر ہوا۔ ام معبد ایک ضعیفہ عورت تھی، جو اپنے خیمہ کے باہر بیٹھی رہا کرتی تھی، اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا، مگر اس کے پاس کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ رسالت مآب ﷺ نے دیکھا کہ اس کے خیمہ کے ایک جانب ایک بہت لاغر بکری کھڑی ہے۔ دریافت فرمایا کیا، یہ دودھ دیتی ہے؟ ام معبد نے کہا نہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ ام معبد نے اجازت دے دی، اور رحمت اللعالمین ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا، تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے، اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے، اور ام معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ یہ معجزہ دیکھ کر ام معبد اور اس کے خاوند دونوں مسلمان ہو گئے۔
سراقہ کا گھوڑا:
جب اُم معبد کے گھر سے رحمت اللعالمین ﷺ آگے روانہ ہوئے، تو مکہ کا ایک مشہور شہ سوار سراقہ بن مالک بن جعثم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیا۔
(سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 167)
سید عالم ﷺ غدیر سے آگے بڑھ چکے تھے، اور خدا کے بھروسے اور اطمینان سے مدینہ کا راستہ طے کر رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرمائے جا رہے تھے، جبکہ سراقہ دور سے تعاقب کرتا نظر آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ قریب پہنچ گیا، اس کا گھوڑا سر کے بل گرا، اور وہ زمین پر گر پڑا، وہ پھر اٹھا، اور سو اونٹوں کے لالچ نے اسے اس بات پر ابھارا، کہ وہ پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا، اور آپ ﷺ کی گرفتاری کے ارادے سے چل پڑا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ دشمن ہمارے قریب ہے۔ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا:
لا تحزن ان اللہ معنا (سورہ توبہ) گھبراؤ نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے۔
رحمت اللعالمین ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ اس دشمن کے شر کو جس طرح تو چاہتا ہے، دور فرما۔ دعا نے شرف قبولیت اختیار کی، اور سراقہ کے گھوڑے کے چاروں دست و پاء زانوؤں تک زمین میں گڑ گئے۔ سراقہ چلا اٹھا، اے محمد (ﷺ) میں جانتا ہوں، کہ یہ آپ کی دعا کا اثر ہے۔ اب دعا فرمائیے، کہ میرا گھوڑا آزاد ہو جائے، مجھے آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس چلا جاؤں گا، اور جو شخص پیچھے آ رہا ہوگا، اسے بھی واپس لے جاؤں گا۔
رسالت ﷺ نے دعا فرمائی، اور فی الفور گھوڑے کے پاؤں زمین سے باہر نکل آئے۔ پھر سراقہ نے کہا اے محمد (ﷺ) میں اپنی بصیرت سے دیکھتا ہوں، کہ تیری شمع نبوت کی شعاعیں تمام دنیا کو منور کریں گی۔ مجھے عہد نامہ عطا فرمائیے، کہ جب آپ کی عزت و جلال کا جھنڈا ثریا کو چھونے لگے، تو میں اس کے وسیلہ سے آپ کی بارگاہ جلال میں راہ پا سکوں۔ سید المرسلین ﷺ نے پوچھا، اے عامر بن فہیرہؓ کیا تیرے پاس قلم و دوات ہے؟ عرض کیا ہاں۔ عامر بن فہیرہؓ نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امان نامہ لکھا، اور اسے دے دیا۔
جب سراقہ واپس لوٹا، تو بہت سے متلاشی اس راستہ پر اس کے پیچھے آ رہے تھے، سراقہ جس کے پاس پہنچا، اسے کہتا کہ میں بھی محمد (ﷺ) کی طلب میں اس راستہ میں آیا تھا، مجھے ان کا کوئی نشان نہیں ملا، اور لوگوں کو واپس کیے جاتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد جب آنحضرت ﷺ غزوہ حنین سے لوٹے، تو مقام جعرانہ میں آپ کی خدمت میں سراقہ حاضر ہوا، اور امان نامہ پیش کیا، اور آپ نے فرمایا، آج نیکی اور وفا کا دن ہے، اسی جگہ دولت اسلام سے بہر مند ہو۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 19 تا 20)