Hazrat Abu Bakr Siddiq (14)
حضرت ابوبکر صدیق (14)
جب کفار نبی کریم ﷺ کے قتل پر (نعوذ باللہ) اتفاق کر کے مشاورت ختم کر چکے، اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے، تو حضرت جبرائیلؑ رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہوئے، کہ اے محبوب خدا ﷺ آج رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں، اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جائیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنا بستر حضرت علی المرتضیؓ کے حوالے کیا، عین دوپہر کے وقت حضور اقدس ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے گئے، اور ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا، کہ سب گھر والوں سے پردہ کروا دیں، کچھ ضروری مشورہ کرنا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا، کہ یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، یہاں آپ کی اہلیہ اور اس کی بہن کے سوا کوئی نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، اے ابوبکر اللہ تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائے۔ آپ ﷺ نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چار ماہ سے دو اونٹنیوں کو ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں، کہ ہجرت کے وقت یہ سواری کے کام آئیں گی۔
عرض کی یا رسول اللہ! ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، قبول ہے مگر میں اس کی قیمت ادا کروں گا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت پر مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔ حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ تو اس وقت کم عمر تھیں، لیکن آپ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکرؓ نے سامان سفر درست کیا، اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے۔
ایک سے توشہ دان کو باندھا، اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا۔ یہی وہ قابل فخر شرف ہے، جس کی بنا پر آپ کو "ذات النطاقین" (دوپٹکے والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ایک کافر کو جس کا نام "عبد اللہ بن اریقط" تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہنمائی کے لیے اجرت پر نوکر رکھا، اور ان دونوں اونٹنیوں کو سپرد کر کے فرمایا، کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر "غار ثور" کے پاس آ جائے۔ (سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 158 تا 160)
عامر بن فہیرہ کو بکریاں چرانے پر مقرر کیا، کہ شام کے وقت ان کے پاس لایا کرے، تاکہ وہ ان کا دودھ پیا کریں، اور عبد اللہ بن ابی بکر کو جو تیز رفتار اور پہلوان تھا، کفار کی جاسوسی کے لیے مقرر کیا، تاکہ وہ دن کے وقت قریش میں رہے، اور حالات معلوم کرے، اور ان کی خبریں ان تک پہنچائے۔ ان مہمات سے فارغ ہونے کے بعد ابوبکر نے کچھ نقدی لی، جس سے سفر میں ضرورت پوری ہو سکیں، اور حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کہتی ہے کہ وہ پانچ ہزار درہم تھے۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 5)۔