Hazrat Abu Bakr Siddiq (13)
حضرت ابوبکر صدیق (13)
حضرت ام ہانیؓ بنت ابی طالب سے روایت ہے، فرمایا، نبی اکرم ﷺ کو معراج میرے گھر میں ہوا، رات وہاں آرام فرمایا، صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا، اے ام ہانیؓ آج رات مجھے بیت المقدس لے گئے، وہاں سے آسمانوں پر پہنچایا گیا، صبح سے پہلے واپس لے آئے۔ حضرت ام ہانیؓ فرماتی ہیں، کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میری درخواست ہے کہ اس عجیب بات کو منکروں کے سامنے پیش نہ فرمائیں، وہ یقین نہیں کریں گے، اور آپ کو جھوٹا کہیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، خدا کی قسم! میں اس قصہ کو کسی سے پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔
عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، کہ نبی کریم ﷺ مسجد حرام تشریف لائے، اور حجرہ میں غمگین بیٹھ گئے، کیونکہ قریش کی تکذیب اور کم ظرفوں کے استہزاء کا خدشہ تھا، اسی خیال میں تھے، کہ ابوجہل لعین آیا، اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، اور آپ سے استہزاء کے طور پر کہا، اے محمد (ﷺ) کوئی نئی چیز ظاہر ہوئی ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ہاں، میں نے ایک ایسا سفر کیا ہے، جو کسی نے نہیں کیا، اور ایسی خبر لایا ہوں، کہ آج تک کوئی نہیں لایا۔ اس نے کہا کہاں تک کا سفر کیا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا، بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں کے طبقات تک گیا۔ اس نے کہا آج رات گئے، اور صبح مکہ میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ وہ کہنے لگا ایسی بات کو قوم کے سامنے بیان کریں گے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جی ہاں۔ ابوجہل چیخ اٹھا، اے گروہ بنی کعب اور اے بنی لوی، لوگ اردگرد جمع ہو گئے۔ ابوجہل نے کہا اے محمد (ﷺ) جو کچھ مجھ سے کہا ہے، ان لوگوں کے سامنے بھی بیان کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، رات مجھے بیت المقدس لے گئے، پھر وہاں سے آسمانوں پر لے گئے۔ حاضرین حیران رہ گئے، اور دست تاسف ملنے گئے۔
ابوجہل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور کہا، آپ اپنے نبی کے پاس پہنچیں، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا، رسالت مآب ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ابوجہل نے کہا کہتے ہیں، رات مجھے بیت المقدس میں لے گئے، حالانکہ رات وہ قوم میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا کیا، یہ بات نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے؟ ابوجہل نے کہا جی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا، کوئی تعجب کی بات نہیں، میں آپ کی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں، اگر نبی کریم ﷺ فرمائیں، کہ میں ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل گیا، اور واپس آ گیا، تو میں اس کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔
ابوجہل نے کہا، میں نے کسی ساتھی کو اپنے ساتھی کی اس طرح تصدیق کرنے والا نہیں دیکھا، جیسا آپ ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے فرمایا ہے، کہ مجھے رات آسمانوں پر لے جایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جی ہاں، حضرت ابوبکرؓ نے کہا، سچ فرمایا یا رسول اللہ ﷺ، پھر عرض کیا یا رسول اللہ! کیسے ہوا؟ آپ ﷺ نے شروع سے آخر تک بیان فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ آپ کی ہر بات ختم کرنے پر کہتے، آپ نے سچ فرمایا۔
پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے ابوبکرؓ تم میری ہر بات کی تصدیق کرتے ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا، یارسول اللہ! کیسے تصدیق نہ کروں؟ وہ خدا جس نے جبرائیلؑ کو ہزار مرتبہ نیچے اتارا، آپ ﷺ کو بھی زمین سے آسمانوں پر لے جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ثابت اور مقرر ہوگیا، کہ سب سے پہلے جس شخص نے نبی کریم ﷺ کے معراج کی تصدیق کی، وہ ابوبکرؓ تھے۔ کہتے ہیں کہ اس روز آپ صدیق کے لقب سے ملقب ہوتے۔
آیت قرآنی نازل ہوئی۔
"والذی جاء بالصدق و صدق بہ"
اور سب سے پہلے جس شخص نے جھٹلایا، اور نبی کریم کی تکذیب کی، وہ ابوجہل تھا۔ اس کے متعلق آیت اتری۔
"فمن اظلم ممن کذب علی اللہ و کذب بالصدق اذ جاؤہ"
پس جو شخص معراج کی تصدیق کرتا ہے، وہ ابوبکر صدیقؓ کا پیروکار ہے، اور جو شخص انکار کرتا ہے وہ ابوجہل کی ذریت ہے۔ (ابوبکر صدیق کے سو قصے مولف شیخ محمد صدیق منشاوی مترجم مولانا خالد محمود صفحہ 50)