Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Hazrat Abu Bakr Siddiq (11)

Hazrat Abu Bakr Siddiq (11)

حضرت ابوبکر صدیق (11)

مشہور روایت کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی ماہ شوال 1ھ بدھ کے روز ہوئی۔ نبی کریم ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے گھر تشریف لائے۔ انصار کے مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد وہاں جمع ہوگئی۔ اس وقت عائشہ صدیقہؓ کی عمر نو سال تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں، کہ ان دنوں ہم محلہ شیخ بنی الحارث میں رہتے تھے۔ ایک روز نبی کریمﷺ تشریف لائے، تو میں سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔

میری والدہ نے آ کر میرے بالوں میں کنگی کی، منہ دھویا اور مجھے اس مکان کے دروازہ تک لے گئی، جہاں سید عالمﷺ تشریف فرما تھے۔ چونکہ میں نے والدہ سے اپنی بے چینی کا اظہار کیا تھا، اسی وجہ سے میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد مجھے سید عالم ﷺ کی خدمت میں لے گئی۔ نبی کریمﷺ کو میں نے اس تخت پر جو ہمارے گھر میں تھا، بادشاہ کی مانند تشریف فرما دیکھا، مجھے لے جا کر آپ کے پاس بیٹھا دیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کی بیوی ہے۔

حق تعالی شانہ آپ کے لیے اس پر اور اس کے لیے آپ پر برکت نازل فرمائے۔ ہمارے پاس دعوت ولیمہ کے لیے کچھ نہیں تھا، اور نہ ہی اونٹ یا بھیڑ بکری ذبح کی۔ ہماری عروسی کا طعام دودھ کا ایک پیالہ تھا، جو سعد بن عبادہؓ کے گھر سے بھیجا گیا تھا۔ میں نے بھی اس دودھ سے پیا۔ پھر حاضرین نے مبارک دی، اور وہ باہر چلے گئے۔ اور اس مبارک وقت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نبی کریم ﷺ سے زخاف ہوا۔ اس خاص حجرہ میں جو مسجد کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا، قیام کیا۔

(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 39)

نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی، اور رخصتی کے وقت نو سال، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔ حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑئی فوائد حاصل ہوئے۔ ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہوگئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے۔

اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے۔ دوسرے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، 350، صحابہ وتابعین نے ان سے احادیث حاصل کی، اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد 2210 ہیں، (سیر اعلام النبلاء، 139/2) سات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں۔

جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ اگر آپﷺ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے۔ فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا، اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتا تھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں۔ پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے۔

اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔ رسول اللہﷺ کے بعد حضرت عائشہؓ 47 سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کے فیض کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا، کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔

Check Also

Muhabbat Fateh e Alam

By Amir Khakwani