Falasteen Ki Tareekhi Aur Taza Tareen Surat e Haal
فلسطین کی تاریخی اور تازہ ترین صورتحال
اسرائیل اور مصر کے درمیان 41 کلومیٹر طویل علاقہ "غزہ کی پٹی" کہلاتا ہے غزہ کی پٹی کے مغرب میں بحیرہ روم شمال اور مشرق میں اسرائیل اور جنوب میں مصر ہے۔ غزہ کی کل آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس آبادی میں تقریبا 17 لاکھ سے زائد وہ پناہ گزین ہیں۔ جو دیگر فلسطینی علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ غزہ میں پناں گزینوں کی آمد 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہونے والی پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی، اس جنگ میں اسرائیل نے یہ یروشلم سمیت کئی فلسطینی علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، 1948ء کی جنگ کے بعد عربوں کے ہاتھ سے بہت سے علاقے جانے کے بعد غزہ کا کنٹرول مصر کے پاس چلا گیا۔
1967ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے غزہ سے مصر کو بے دخل کر دیا اور ساتھ ہی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاقے بھی حاصل کر لیے، فلسطینی ان تینوں علاقوں کو اپنی مجوزہ ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں غزہ میں اسرائیل کا کنٹرول قائم ہونے کی 20 برس بعد 1987ء میں یہاں فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا، جسے وہ پہلا انتفاضہ کہتے ہیں اسی دور میں غزہ میں عسکری تنظیم حماس قائم ہوئی، جسے عرب دنیا میں سرگرم اسلامک تنظیم اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ قرار دیا جاتا ہے، اس سے قبل فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی مرکزی قیادت فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس تھی جس کے سربراہ یاسر عرفات تھے 1993 میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو امن معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی جسے غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر محدود اختیارات دیے گئے، 2005ء میں دوسرے قدرے پرتشدد انتفاضہ کے بعد اسرائیل نے غزا سے اپنی فوجیں واپس بلا لی۔
اسرائیلی انخلا کے بعد 2006 میں فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات ہوئے اس میں حماس غزہ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد اقتدار کے لیے فلسطینی صدر محمود عباس اور پی ایل او میں شامل ان کی فتح پارٹی کی حماس کے ساتھ کشیدگی کا آغاز ہوا دونوں گروپوں کے درمیان 2007 میں تصادم ہوا جس کے بعد غزہ مکمل طور پر ہم حماس کے کنٹرول میں آگیا۔
حماس کی انتخابی کامیابی کے بعد اسرائیل اور مصر نے غزہ پر مختلف پابندیاں عائد کر دیں۔ اور زمینی و فضائی سرحدیں بند کرنے جیسے سخت اقدامات کیے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں اور بندشوں کا مقصد حماس کو ہتھیار درآمد کرنے سے روکنا ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے غزہ کی آبادی کے لیے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 16 برس سے جاری کشیدگی کی وجہ سے غزہ کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ جہاں بیروزگاری کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے اور پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے بھی غزہ کی آبادی کو اسرائیل پر انحصار کرنا پڑتا ہے، غزہ دنیا کی گنجان ترین اور سب سے زیادہ شرح پیدائش رکھنے والے خطوں میں شامل ہے۔
غزہ کی 40 فیصد آبادی کی عمر 15 سال سے بھی کم ہے۔ جبکہ 30 سے 59 سال عمر کے لوگ آبادی کا 27 فیصد ہیں اس علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور انہیں کام کاج تعلیم یا اہل خانہ سے ملنے کے لیے غذہ سے باہر جانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غزہ میں اکتوبر 2023ء کے راکٹ حملوں اور اسرائیل کی جوابی کاروائیوں سے پہلے 2008,2012 اور 2014 میں بھی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن ان تین جنگوں اور 16 برس سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کے باوجود حماس تاحال غزہ میں مضبوط ہے رواں اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد غزہ کو ایک بار پھر اسرائیل کی بمباری اور فضائی حملوں کا سامنا ہے اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے تک یہ کاروائیاں جاری رکھے گا لیکن حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل اپنے حالیہ حملوں کے ذریعے غزہ کی آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کرکے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی بیت المقدس کی حفاظت فرمائے۔ اور غزہ کے مسلمانوں کی غیبی مدد و نصرت فرمائے۔ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ان کے حقوق کی ادائیگی میں ان کی مدد ونصرت کی توفیق عطا فرمائے۔