Aulad Ki Achi Tarbiat Jannat Ki Kunji Hai
اولاد کی اچھی تربیت جنت کی کنجی ہے
بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت پتھر پر لکیر کے مانند ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی۔
نیز بلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق و اعمال کا مرتکب ہو گا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہونگے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ نیز اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نافرمان اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
لفظِ "تربیت" ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد و غرض، عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرے کا قیام ہے۔ تربیتِ اولاد بھی اُن ہی اقسام میں سے ایک اہم قسم اور شاخ ہے۔ آسان الفاظ میں"تربیت" کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ "برے اخلاق و عادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح، پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام "تربیت" ہے۔
تربیت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ظاہری تربیت، باطنی تربیت۔
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست و برخاست، میل جول، اس کے دوست و احباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ کے امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح و درستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔
ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت و شفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری و مادری فطری جذبات و احساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنہیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے"قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ"۔ (التحریم:۶)
ترجمہ: "اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں"۔
حضرت علیؓ نے اس آیت کی تفسیر و تشریح میں فرمایا کہ "علموھم وأدِّبوھم"۔
ترجمہ: "ان (اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ"۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔ اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
1: "مانحل والد أفضل من أدب حسن"۔ (بخاری، جلد:1، ص:422)
ترجمہ: "کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھا دے"۔ یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
2: "عن ابن عباسؓ۔ قالوا: یارسول اللہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال:أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ"۔ (سنن بیہقی)
ترجمہ: "حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے، یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دار و رکھوالا ہے، اُنہیں ضائع کر دے، ان کی تربیت نہ کرے"۔
یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑ دینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد و اخلاق برباد ہو جائیں۔ نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے "اپنی اولاد کو ادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا، کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟ (شعب الإیمان للبیہقی)
بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔ بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، اور اس پر اُسے شاباش اور کوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے، جس سے بچہ خوش ہو جائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہو جائے۔
بچوں کی غلطی پر اُنہیں تنبیہ کرنے کا حکیمانہ انداز بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے، جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑ پکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہو گی، بچے سے خطأ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہو جاتی ہے۔
ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کر بیٹھے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا اور تنبیہ کی جائے۔ تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے، کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟
تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ انداز ایسا ہو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد کی اچھی تربیت اور ان کے حق میں اچھے فیصلے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ان کی دنیا و آخرت سنور جائے۔ اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جائیں۔