Siasat Se Doori (1)
سیاست سے دوری (1)
عقلمند کہتے ہیں کہ کبھی کبھار نہ جاننا، جاننے سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر چیز کی معلومات ہونا بھی ایک عذاب ہے۔ کسی وقت سیاست اور ملٹری سے منسلک لوگوں کے درمیان بند دروازوں کے پیچھے کیا باتیں ہوتی تھیں اور کیا نہیں، عام عوام تک نہیں پہنچتی تھی، اور یہ سب کسی نعمت سے کم نہیں تھا، یقیناً وہ حسین دن اب کبھی نہیں آئیں گے اور اب ان عہدیداران کی آپس کی عام گفتگو کا بھی صحافی (جن کے یوٹیوب چینل ہیں، جو ٹی وی پر ہیں) اس قدر تفصیلی جائزہ لیتے ہیں کہ جیسے یہ بہت ہی قیمتی اور ضروری انفارمیشن ہے، میں یوٹیوب پر بیٹھے صحافیوں کی ریسرچ کرنے کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔
اگر کسی ملٹری سے منسلک اعلیٰ عہدیدار کی عیاش زندگی کی داستان آپ تک پہنچ بھی جائے تو آپ کیا اکھاڑ لیں گے ان جناب کا؟
اس بات سے مجھے کنفیوشس (Confucius) کا ایک قصہ یاد آ گیا جب موجودہ حکمران کے ظلم سے تنگ آ کر ایک نوجوان کنفیوشس سے کہتا ہے کہ
"میں موجودہ حکمران کو بتانے جا رہا ہوں کہ اس کی ان پالیسیوں سے ہم سب بہت تکلیف میں ہیں، اور یہ سب نہیں چلے گا"۔
کنفیوشس جواب دیتا ہے "بھائی! ٹھنڈ رکھو"، تمہارے ارادے جذباتی ہیں اور یاد رکھو کہ ان ارادوں کا نقصان ہو سکتا ہے، حکمران اس انتظار میں نہیں بیٹھا کہ تم اسے آ کر بتاؤ کہ ملک کیسے چلانا ہے، بلکہ تم خاموشی سے اس نظام کو سمجھو، اس کی جانچ پڑتال کرو، اس نظام میں رہ کر بادشاہ اور اس کی حکومت کو سمجھتے ہوئے صحیح وقت کا انتظار کرو جب موقع ملے تو نظام کو بدلنے کی کوشش کرو۔
میں کنفیوشس کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی، یہ ہمارے معاشرے اور دور سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اور اگر رکھتا بھی ہے تو اس میں بہت وقت لگ سکتا ہے، اور ہمیں زندگی ایک بار ہی ملتی ہے، اس لیے اپنی انرجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔
اگر آپ اس سیاسی نظام سے نمٹنا چاہتے ہیں تو میرے پاس آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ایک تھیوری (theory) ہے، بہت ممکن ہے کہ آپ کو اس سے اختلاف ہو، اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن یہ تھیوری مجھے بہت پسند آئی ہے۔ میں نے یہ آرٹیکل آج سے بہت پہلے اپنے موبائل کے نوٹس میں لکھا تھا، لیکن مجھے لگا کہ یہ محض میرا نظریہ اور ایک تھیوری ہے تو اسے شیئر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آج خیال آیا کہ کیوں نہ سیاست میں انتہائی دلچسپی رکھتی ہوئی عوام کے ساتھ اس تھیوری کو شیئر کیا جائے، کیا پتہ مجھ جیسے کسی اور سر پھرے کو اسے پڑھنے کی ضرورت ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ مجھے ملک کے حالات جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں، میں ملک کے حالات سے باخبر رہتی ہوں، لیکن اس لیے نہیں کہ اس پر تبصرہ کروں یا کوئی نظریات قائم کروں، بلکہ میں اس لیے باخبر رہتی ہوں تاکہ حالات اور مہنگائی کے مطابق اپنا "بجٹ" کنٹرول کر سکوں، کیونکہ آخر میں سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالنے کے بعد اگر کچھ آپ کے اختیار میں ہے تو وہ صرف آپکا اپنے بجٹ کو کنٹرول کرنا ہی ہوتا ہے۔
ہر نظریہ، ٹرینڈ یا ادارہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے، بہت سے لوگ کہتے ہیں پاکستان کے اداروں کی نااہلی اور اصلیت کی آگاہی سوشل میڈیا نے دی ہے جبکہ میرا ماننا اس کے برعکس ہے، پاکستان بھی ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا، کوئی بھی نظریہ، ادارہ ہو اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے، سالوں لگ جاتے ہیں لیکن فطرت سب آشکار کر دیتی ہے، طاقت اور کمزوری کا یہ رقص چلتا رہتا ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تبدیلی والا کھیل ہماری دنیا یا پھر شاید کائنات جتنا پرانا ہے، یہ فطرت کا نظام ہے، سب بدلتا ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ یہ تبدیلی دیکھنے کے لیے آپ اور میں زندہ نہ رہیں، اس لیے میں نے اپنی انرجی کو بچانے کا فارمولا اسی زندگی میں ڈھونڈ لیا ہے کیونکہ میں اس "امید" پر زندہ نہیں رہ سکتی کہ کوئی نجات دہندہ آ کر مجھے حکمران کے ظلم سے نجات دلائے گا، اور فطرت بہت سست اور کاہل ہے۔
(جاری ہے)