Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nida Ishaque
  4. Doosre Hath Ko Pata Na Chale

Doosre Hath Ko Pata Na Chale

دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے

ٹروما تھراپسٹ اینا رنکل ٹروما سے گزرنے والے افراد کو اکثر ٹروما سے ملنے والے زخموں کو بھرنے کے لیے کئی تکنیک اور پریکٹس میں ایک پریکٹس "دوسروں کو بنا بتائے انکی مدد کرنے یا بنا کسی شخص یا لوگوں کو معلوم ہوئے انکا کوئی کام کرنے"، کو بہترین عمل بتاتی ہیں۔ وہ مدد یا عمل جو صرف آپ کو معلوم ہو اور جس سے کسی کو فائدہ پہنچے اس سے آپ شفا یاب (healed) محسوس کرتے ہیں۔ اینا کی اس بات سے مجھے یہ حدیث یاد آ گئی (جو اکثر ہم اسلامیات کا پرچہ پاس کرنے کے لیے لکھتے تھے۔)

"ایک ہاتھ سے صدقہ کرو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے"۔

بیشک اس حدیث میں حضرت محمد ﷺ دانش کی معراج پر ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں اشتہار بازی بہت عام ہے۔ کبھی کبھار اپنی چیزوں یا سرگرمیوں کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا یا انکا اعلان کرنا غلط نہیں، لیکن اشتہار لگانے کی مفت سہولت (سوشل میڈیا) نے اسے بہت عام کر دیا ہے اتنا عام کہ اب شاید اس دکھاوے سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے لوگوں کو اور خاص کر اسکی زیادتی کا نقصان ہماری ذہنی صحت کو ہے۔

اکثر دوسروں کی مدد کر کے ہم جذباتی محسوس کرتے ہیں، اور جن کی مدد ہو رہی ہو وہ بھی جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن جذبات آپ کے ٹروما اور اس سے ملنے والے زخم کو نہیں بھرتے اور نہ ہی آپ کی ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ بلکہ جذبات کو کنٹرول کرنا اور اس سے جسم میں پیدا ہونے والے احساسات (sensations) کا خاموشی سے مشاہدہ کرتے ہوئے ان کو، جانے دینا (let go) آپ کے جذباتی زخم (trauma)کو بھرتا ہے۔

اس حدیث کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں جسمانی احساسات کا مشاہدہ کرنے کو کہا گیا ہے، اس میں کچھ اچھا کرنے والے کام سے ہونے والی اکساہٹ (excitement) کو حل (dissolve) کرنے کا حکم اور وہ بھی اس قدر، خاموشی سے کہ آپ کے دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو، یعنی آپ کو کسی مدد کرنے کے بعد اس سے پیدا ہونے والی، تعریف کی چاہ اور تمنا پر حد درجہ کنٹرول ہونا چاہیے۔ اس والی پریکٹس کے لیے، خالص آگاہی (pure awareness) چاہیے۔

اس حدیث سے مجھے بدھ مت کی ایک میڈیٹیشن پریکٹس یاد آئی جسے "ٹونگلین میڈیٹیشن" (Tonglen Meditation) کہتے ہیں۔ اس میڈیٹیشن میں آپ دوسرے انسانوں (جنہیں آپ جانتے ہیں، جن سے آپ کو نفرت ہے، یا محبت ہے یا جنہیں آپ نہیں بھی جانتے) کا درد، تکلیف، غصہ، نفرت، خوف، اس دنیا میں موجود ناانصافی اور بربریت کو ایک گہرا سانس لے کر (inhale) اسے تصور کر کے خود کے جسم کے اندر محسوس کرتے ہیں۔

کچھ دیر کے لیے سانس روک کر اسے محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر اس درد کو محبت، ہمدردی (compassion)، مسرت (joy)، امید (hope) میں بدل کر سانس کو چھوڑ (exhale) دیتے ہیں۔ آپ بھی سوچیں گے کہ یہ کیا پاگل پن ہے، اس سے کیا ہو گا؟ اور میں کیوں انسانوں اور خاص کر ان انسانوں جن سے مجھے نفرت ہے ان کے بارے میں اچھا سوچوں؟ مجھے اس سے کیا مل رہا ہے؟

یہ پاگل پن آپ کو سکون دے سکتا ہے، اور خاص کر تب جب آپ سب کے سامنے ڈھنڈورا پیٹے بغیر، کہ میں نے تم سب کے لیے دعا کی یا میں بہت نیک نیت انسان ہوں وغیرہ وغیرہ، صرف اپنے درد کے ساتھ چپکے بغیر دوسروں کا درد بھی محسوس کریں گے تو اس سے آپ کو سکون ملے گا۔ آپ کے اندر کی نفرت کم ہو گی اور اب اس نفرت اور غصہ سے ضائع ہونے والی انرجی بچا کر آپ کسی پروڈکٹو (productive) کام میں لگا سکتے ہیں۔

لیکن آپ نے اعلان نہیں کرنا ہوتا کہ میں ٹونگلین میڈیٹیشن کر رہا ہوں اور بہت ہی کوئی عظیم انسان ہوں۔ یہ بہت خاموشی سے کرنے والا عمل ہے، جسکا فائدہ انسانیت کو شاید بالواسطہ (indirectly) ہو لیکن آپ کی ذہنی صحت کو بلاواسطہ (directly) ہے، کیونکہ یہ آپ کے اندر کی دنیا کو شفا دیتا ہے اور جس انسان کے اندر کی دنیا (inner world) شفایاب ہو، جس کے ماضی کے بوسیدہ اور لاشعوری زخم بھرے ہوئے ہوں وہ دوسروں میں بھی شفا بانٹتا ہے، اور جس کے اندر محض درد، تکلیف اور نفرت بھری ہو وہ اپنے آس پاس والوں کو اسی کا احساس دلاتا ہے، بیشک آپ کی اندر کی دنیا ہی آپ کی باہر کی دنیا کو تخلیق کرتی ہے۔

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt