Safeer e Aman Jamshed Khan Dukhi Ki Pehli Barsi
سفیر امن جمشید خان دکھی کی پہلی برسی
شاعر سفیر امن جمشید خان دکھی کو کسی سند کی ضرورت نہیں، ان کے کلام میں خلوص ایک دوسرے سے ہمدردی رکھنے کی بھر پور قوت موجود ہے۔ جمشید خان دکھی کی شاعری اتنی شفاف واضع ہے کہ براہ راست قاری اور سننے والوں کے زہن زوق اور ضمیر سے مکالمہ کرتی ہے۔ تشریح تنقید کی مہملیت شاعری کی موت تو دے سکتی ہے، زندگی نہیں، جمشید خان دکھی نہ صرف شاعر بلکہ وہ مفکر دانشور اور استادالشعراء تھے۔
گلگت بلتستان کے جتنے بھی لکھاری تھے، سب کے سب دکھی صاحب سے اصلاح لیتے تھے اور ان کی نظروں سے گزرے بغیر وہ لکھنے والے اس لکھے ہوئے اشعار کو نامکمل سمجھتے تھے۔ راقم بھی ان کے عقیدت مندوں کے علاوہ ان کے شاگردوں میں سے ہوں اور ان سے اپنی شاعری کی اصلاح لیتے تھے۔ راقم نے متعدد بار رات کے بارہ بجے بھی لکھنے بیٹھتا تو دکھی صاحب کو ضرورت کے پیش نظر اسی وقت فون کرتا تو وہ بلا ججھک بلا تکلف اور ایک شفق باپ کی طرح سب سے پہلے خود فون پہ سلام کرتے۔
خبر خیریت پوچھتے اور اس کے بعد راقم خود کا لکھے ہوئے بے ربط اشعار ان کو سناتا رہتا اور وہ خاموشی سے سننے کے بعد ان اشعار کی نوک پلک درست کرکے واپس ارسال کر دیتے تھے۔ جب مجھے رات کے اس پہر فون کرکے عجیب کیفیت محسوس کرتا اور ان سے معذرت کرنے کی کوشش کرتا تو وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، بس علم وادب کو بانٹنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
بلکہ مجھے فخر ہے کہ میں علم ادب سے محبت رکھنے والے مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ آپ جیسے لکھنے والے مجھ سے اصلاح لیتے ہیں تو میں خوش ہوتا ہوں، بلکہ دکھی صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ علم وادب بانٹنے اور اشعار وغیرہ کی اصلاح کرنے کیلئے خود چل کر مہدی آباد سکردو آوں گا، کیونکہ علم وادب کیلئے میں اپنا تن من اور جان قربان کروں گا، یہ سب جمشید خان دکھی صاحب کی علم وادب سے اور مجھ جیسا ادنی سا علمی وادبی طالب علم سے محبت اور خلوص کا بین ثبوت تھا۔
کئی بار راقم گلگت پہنچ کر ان سے اپنی شاعری کی اصلاح لیتا رہتا تو وہ میری شاعری کی اصلاح کرنے کے علاوہ گلگت کے مہنگے ترین ہوٹل میں لے جاکر خود کھانا اور چائے پلاتے تھے۔ اس دور میں کون کسی دوسرے کیلئے قربانی دے سکتا ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ہر کوئی اپنے بچوں کی پیٹ اور فکر معاش میں مگن ہے۔ لیکن میرے استاد محترم چوبیس گھنٹے لوگوں میں علم و ادب اور امن بھائی چارگی کا ماحول پیدا کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
جمشید خان دکھی کھبی مذہبی سیاسی یا علاقائی تعصب کے چکر میں نہیں پڑے ان کے دل میں بغض نفرت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، بلکہ شرپسندوں اور نفرت پھیلانے والوں سے الااعلان نفرت کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کے اس کلام میں ملتا ہے
تعصب سے بھرا پیغام یہ ہے
بہاو خون درس عام یہ ہے
مسلمانوں کا گر انجام یہ ہے
میں کافر ہوں اگراسلام یہ ہے
اس اشعار سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جمشید خان دکھی صاحب کتنے امن پسند انسان تھے۔ جب انہوں نے یہ قطعہ لکھا تو لوگوں نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا پھر بھی انہوں نے اس تنقید کو نظرانداز کیا اور سفیر امن ہونے کا ثبوت دیا، اگر گلگت میں امن کی فضا قائم ہے تو دکھی صاحب کی مرہون منت ہے۔ جناب جمشید خان دکھی صاحب نے اپنے کلام کے زریعے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت پیدا کی۔
ان کے دل میں گلگت بلتستان کے عوام کیلئے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا آدمی نہیں تھا، ہر ایک کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجھ جیسا ایک ادنی سے بندے کو اللہ تعالی نے ایک بیٹا عطا کیا تو میرے بیٹے کی پیدائش پر انہوں نے میرے بیٹے مصور عباس پر ایک قطعہ لکھا
کرم ناصر پہ یارب خاص کردے
اسے ہر امتحان میں پاس کردے
مصور کیلئے میری دعا ہے
نمونہ سیرت عباس کردے
میں اپنے لئے یہ اعزاز سمجھتا ہوں کہ جمشید خان دکھی جیسے بڑے شاعر نے میرے بیٹے کی پیدائیش پر قطعہ لکھا مجھے اپنے بیٹے سے عزیز دکھی صاحب کا یہ قطعہ ہے۔ جو انہوں نے بڑے خلوص سے لکھا گیا اور یہ قطعہ آج کل ہر ایک کی زبان زد عام ہے۔ آج میرا یہ کالم لکھنے کا مقصد ان کی یادوں کو تازہ کرنا ہے۔ دوسری بات آج بیس فروری ہے، گزشتہ سال آج ہی کے منحوس دن کو دکھی صاحب ہم سے جدا ہوگئے، اللہ تعالی سے دلی دعا ہے کہ دکھی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔