Pakistan Ki Muashi Badhali Aur Iske Zimedaran
پاکستان کی معاشی بد حالی اور اس کے ذمہ داران
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال انتہائی خستہ ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال تشویش ناک ہے لہٰذا معاشی صورت حال بہتر بنانے کے لئے حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے توانائی، پٹرولیم، خزانہ اور اقتصادی امور کے حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں ٹیکسوں کی شرح اور محصولات میں اضافے سمیت نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
پاکستان میں شرح مہنگائی آئے روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت کے پاس اس کی روک تھام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روز بہ روز ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے جس کا حصول عام آدمی کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوتی جا رہی ہے اور دوسری جانب دیکھیں تو حکومت کو اس سے کوئی سرو کار نہیں۔
عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ امیر امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ووٹ لینے والے عیش و آرام کی زندگی جی رہے ہیں جبکہ ووٹ دینے والے فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ایک مخصوص ٹولہ ہے جس نے ملک کی ہر چیز پر جابرانہ تسلط قائم کیا ہوا ہے۔ آج سے آٹھ یا نو مہینے پہلے جو لوگ عوام کی ہمدردی کے لئے مہنگائی کا راگ الاپتے تھے آج اقتدار میں آ کر اسی مہنگائی کو تین گنّا کر کے مزے کی نیند سو رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان صاحب 2018 میں پہلی بار حکومتی منصب سے خالی ہاتھ رہ کر انتخاب کردہ حکومت کے خلاف نکل پڑے تھے۔ آج چودہ پارٹیوں کا صدر ہو کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر عوام سے بے خبر بیٹھے ہیں جبکہ آٹھ مہینے پہلے گلی گلی میں ریلیاں نکال کر مہنگائی، بے روزگاری اور ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لئے بے چین پھرتے تھے۔
آج کوئی ان کو بتائے کہ جب آپ مہنگائی کے خلاف نکلے تھے اور ریلیاں نکالتے تھے تب ڈالر 189 روپے پر تھا، تیل کی قیمتیں بھی اوسط تھیں، پٹرول ایک لیٹر کی قیمت 149 تھی جبکہ آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دو ہفتوں میں تیل کی قیمتیں 100 روپے مہنگی ہوگئی، ڈالر کی قیمت میں 50 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مولانا کو وزارتوں سمیت بے تحاشا مراعات و سہولیات مل چکی ہیں۔ اس کا منھ بند کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف ہم دیکھیں تو برسر اقتدار آئیں ہوئیں 14 پارٹیوں کے ساتھ ہماری میڈیا نے بھی اس ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یقین نہیں آتا تو رات 9 بجے ٹی وی آن کر کے دیکھیں آپ کو پتہ چل جائے گا۔ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مشکل معیشت کی بدحالی ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ یہاں ہر کسی کا منھ پیسے سے بند کیا جاتا ہے۔
آج کل میڈیا دیکھیں تو آپ کو لگے گا پاکستان میں تو معیشت کی ترقی آسمان کو چھو رہی ہے۔ میڈیا پر صرف یہ دکھایا جا رہا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے گھڑی، بالیاں وغیرہ چرائی ہیں، بلاول نے عمران کے خلاف یہ ٹویٹ کیا ہے، فلاں نے فلاں کے خلاف یہ کہا ہے وہ کہا ہے۔ بالکل فضول اور عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔
میڈیا پیسے والوں کی دلال ہے بلکی رکھیل بن چکی ہے وہ جیسے چاہے بالکل ویسی خبریں بلوا لیتی ہیں۔ کتنے کم ظرف اور عقل و دانش سے عاری لوگ ہیں۔ عوام کی اذیتوں کی ذرہ برابر بھی ترجمانی نہیں کرتے۔ معیشت بری طرح سے تباہ ہو رہی ہے لیکن میڈیا اس کے بارے میں بالکل چپ ہے کیوں کہ ہمارا میڈیا بک چکا ہے، امیروں کی دلالی کرتا ہے اور ان کے پالتوں ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ میڈیا کا کردار بالکل صفر ہے۔ چودہ پارٹیوں میں ملک کی یہ حالت ہے۔
جب عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے سے ہٹا دیا گیا تو قومی خزانے میں 22 ارب ڈالر تھے جبکہ آج قومی خزانے میں محض 6، 5 ارب ڈالر ہیں جو کہ آئیند ایک صوبے کے بجٹ کے لئے بھی ناکافی ہے۔ ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہم سری لنکا کی طرح تباہ حال ہو جائیں گے۔ لیکن اثر کس پر پڑے گا اثر صرف اور صرف غریب عوام پر پڑے گا۔
کیوں کہ اس ملک میں تو صرف ان کو رہنا ہے وہ کہاں جائیں گے؟ ان کا اور ٹھکانہ کہاں ہے ان بڑے بڑے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے تو پہلے ہی اپنے کاروبار اور رہائشیں باہر ملکوں میں بنائی ہوئی ہیں، اپنی بوریاں بستر باندھ کر نکل جائیں گے۔ پھر ہم ان حرامیوں کے ہاتھوں خوار و ذلیل یہاں رہ کر خود کشیاں کریں گے۔
حالیہ سیلاب نے جو تباہی و بربادی پھیلا دی تھی۔ لوگوں کی زندگیاں خراب ہوئی تھیں، فصلیں تباہ ہوئی تھیں، مال مویشی سب سیلاب کی نذر ہو گئے تھے اب تک ان کو کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب باہر ملکوں سے کوئی امداد آتی ہے تو کمینے لوگ اس امداد کو بھی اپنے ذاتی استعمال کے لئے بچا کے رکھتے ہیں۔ دو دن پہلے مولانا فضل الرحمان کا جلسہ تھا انھوں نے جلسے میں وہ تمبو استعمال کئے تھے جو سیلاب زدگان کے لئے دئے تھے۔ ضرورت مندوں کے لئے دی گئی امداد بھی وہ کھا جاتے ہیں اور وہ بھی ایک اسلامی شخصیت جس کی سپرستی میں لاکھوں علماء ہیں۔
جس طرح سیاست دانوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے بے خوف و خطر لوٹا ہے بالکل اسی طرح میڈیا نے بھی اس ملک کو تباہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور کر رہا ہے۔ لٹیروں کو عدالت پناہ دے رہی ہے، میڈیا ان کی وکالت کر رہا ہے۔ یہاں قصور وار ہیں تو صرف عوام ہے۔ سیاست دان تو فرشتے ہیں اور دودھ کے دھلے ہیں۔ یہاں انصاف کوڑیوں کے دام بکتا ہے، قانون کا نام و نشان نہیں، یہاں انسانوں کے زمرے میں صرف سرمایہ دار آتے ہیں باقی عوام تو کچرے کا ڈھیر ہے۔
ہم ہر پانچ سال انہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جنھوں نے ہمیں پچھلے 75 سالوں سے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے لیکن پھر بھی ہم ان سے یہ آس لگاتے ہیں کہ اس بار یہ ضرور ہماری حالت بدل دیں گے اور ہر بار ہماری سوچ غلط ثابت ہوتی ہے۔ چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک نظام نہیں بدلتا تب تک ہم ایسے ہی خوار و ذلیل ہوتے رہیں گے۔ کچھ مخصوص خاندان دہائیوں سے ہم پر مسلط ہے اور آگے بھی ہوتے رہیں گے۔
جب تک یہ بدبو دار اور باسی نظام رہے گا ہم غریب تھے اور غریب ترین رہیں گے، ہم غلام ابن غلام تھے اور غلام ابن غلام رہیں گے۔ اس نظام کو بدلنے کے لئے ایک مظبوط انقلاب کی ضرورت ہے۔ ایک تو ہماری ذہن میں یہ بات اچھی طرح سے ڈال دی گئی ہے کہ انقلاب ایک خونی تحریک ہوتی ہے، اس میں لوگ مریں گے، خون کی ندیاں بہیں گی۔ یہ سراسر ایک مغالطہ ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم کو غلط پڑھایا گیا ہے۔
یہ بھی انہی اشرافیہ کی چال ہے کہ اگر یہ لوگ ہم سے تنگ آ کر انقلاب لانا چاہیں تو ان کی ذہن سازی اس طرح کریں کہ انقلاب بھی ان کی نظروں میں ایک خونی عمل ہو۔ خدا کے بندوں تارخ پڑھو، مطالعہ کرو۔ روسی انقلاب دنیا کا مضبوط ترین اور بہت بڑا انقلاب تھا، اس انقلاب میں صرف تین لوگ مارے جا چکے تھے اور وہ بھی ذاتی عناد پر۔
اقوم کی تقدیر جوانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور پاکستان کی جوان نسل دنیا میں سب سے زیادہ ہے اسی لئے ہماری جوان نسل کو چاہئے کہ وہ انقلاب لانے اور اس نظام کو بدلنے کے لئے نکلے اور اپنا حق زبردستی سے لیں۔ اگر ہم یہ سوچ کر چپ ہو جائیں کہ ہمیں مار دیا جائے گا تو ہم پہلا کون سا جی رہے ہیں؟ صرف سانس لے رہے ہیں اور ایسے لوگ دنیا پر صرف بوجھ ہوتے ہیں۔ زندوں میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔