Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasar Iqbal Azad
  4. Pakistan Ki Haqeeqat

Pakistan Ki Haqeeqat

پاکستان کی حقیقت

کچھ دن پہلے کسی کام سے ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ دفتر کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو اتفاقاَ نظر دروازے کے ساتھ نصب ایک بورڈ پر پڑی جس پر خوبصورت خطاطی میں لکھا ہوا تھا "الراشی و المرتشی کلا ھما فی النار" ترجمہ: رشوت لینے اور دینے والا دونوں آگ(جہنم) میں ہونگے۔ میں کچھ دیر خاموش کھڑا اس بورڈ کو تکتا رہا۔ اسی اثناء دروازے پر تعینات چوکیدار کی آواز دینے پر میں چونکا۔ اس نے اندر آنے کے لئے مجھے اندر بلایا۔ اندر جاتے ہی میں نے کلرک کے کمرے کے بارے میں پوچھا۔ اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے اس طرف بھیجا۔ میں نے بڑے مہذب انداز میں اجازت لے کر اندر داخل ہوا۔ سامنے کرسی پر ایک چالیس سالہ شخص بیٹھا کمپیوٹر پر شاید میرے اندازے کے مطابق کسی ضروری کام میں محو تھا۔ میں نے اسے سلام کیا اور خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھ گیا۔

کچھ دیر گزرجانے کے بعد ایک آدمی بنا اجازت کے ہڑبھڑاتا ہوا غضب ناک انداز میں اندر داخل ہوا۔ وہ بنا خوف و خطر کے کلرک کے سامنے کھڑا ہوا اور غصے کی حالت میں کہنے لگا، میرے کام کا کیا ہوا؟ کلرک نے کمپیوٹر کے پردے سے نگاہ ہٹائی اور اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو دن بعد آجانا۔ کلرک کے اس جملے سے وہ شخص اور آگ بگولہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہ کیا ہے پچھلے دو مہینوں سے میں لگا تار آتا رہتا ہوں اور تم مجھے بار بار کہتے ہو کہ کل یا دو دن بعد آجانا۔ کلرک نے کسی سے ٹیگ لگاتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری دفتر ہے یہاں کام ایسے نہیں ہوتے۔ یہاں لین دین سے کام چلتا ہے اور آپ ہیں کہ صرف اپنے کام کا پوچھ رہے ہیں اور کوئی بات کرتے ہی نہیں۔ میں کرسی پر بالکل خاموش بیٹھا ان دونوں کی اس لڑائی جیسی گفتگو کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اسی اثنا کلرک اپنی کرسی سے اٹھا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے کمرے سے باہر لے گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں خوش گپیوں میں مگن کمرے میں داخل ہوگئے۔ مجھے ایک عجیب سا جھٹکا لگا اور سوچنے لگا کہ یہ دونوں تو کچھ لمحے پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوجائیں گے لیکن یہ دونوں تو ہنسی مذاق کرتے ہوئے دوبارہ آگئے۔ کلرک نے آتے ہی ایک دراز کھولا اور ایک فائل اندر سے نکالا۔ فائل نکالتے ہی اس نے وہ فائل اس شخص کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ لو تمھاری فائل کام ہوگیا ہے اگلی بار کوئی کام ہو تو اسی طریقے سے نپٹا لیجئے بے کار میں غصہ نا کریں۔ اس شخص نے فائل کلرک کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اس شکریہ ادا کیا اور کمرے سے رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد کلرک میری طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ ہاں بھئی! اب تم بتاءو تمھارا کیا کام ہے؟ میں نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا کہ آپ نے تو پہلے اس سے کہا کہ آپ دو دن بعد آجانا اور اب تم نے فائل اس کو دیدی کہ آپ کا کام ہوگیا ہے، یہ کیا ماجرا ہے؟ کلرک نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ شاید پہلی بار کسی سرکاری دفتر آئے ہوئے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک سرکاری دفتر میں اپنا کام کیسے کروانا ہے؟

میں نے اس سے کہا کہ آپ کے دفتر کے دروازے پر تو لکھا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں آگ میں ہونگے، اس پر کلرک صاحب نے جواب دیا کہ ہاں بھئی تو کیا لکھیں کہ اس دفتر میں کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ کیسے پاگل آدمی ہو؟ بہر حال اس نے مجھے بھی ایک تاریخ دی کہ فلاں دن آجانا تیرا کام ہوجائے گا، میں نے حیرانی میں سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ مرکزی گیٹ سے نکلتےہوئے میری نظر ایک بار پھر اس بورڈ پر پڑی جس پر رشوت کے بارے میں حدیث درج تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ ایک چھوٹے سے کام کے لئے ایک چھوٹے سے دفتر میں ایک چھوٹا سا کلرک رشوت لیتا ہے تو بڑی کاموں کے لئے بڑے بڑے افسر کیا لیتے ہونگے؟ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک کان پھٹنے والی ہارن نے مجھے میری سوچوں سے بیدار کیا۔ دیکھا تو ایک تیز رفتار گاڑی میرے سامنے سے گزری اگر میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا تو وہ گاڑی مجھے کچل دیتی وہ تیز رفتاری کی وجہ سے ذرا دور جا کر رکی اور ڈرائیور نے شیشے سے سر باہر کرتے ہوئے مجھ سے معافی مانگنے کے بجائے الٹا ہی مجھے دو چار سنادی۔ میری ہونٹوں پر بے اختیار ہنسی امڈ آئی اور ڈرائیور کو بنا کچھ کہے وہاں سے چل پڑا۔ اسی طرح پیدل چلتے ہوئے ذرا دور جاکر دیکھا تو سڑک کے کنارے میونسپلٹی والوں کا کچرا دان دیکھا۔ قریب جا کر دیکھا تو ساری گندگی کچرا دان کے ارد گرد پڑی ہوئی ہے اور کچرا دان قدرے خالی پڑا ہے۔ انتہائی افسوس ہوا کہ لوگ کچرا، کچرا دان کے پاس لاتے ہوئے بھی اس میں نہیں ڈالتے بلکہ آس پاس ہی پھینک کر چلے جاتے ہیں۔

بس سٹاپ پر گھر جانے کے لئے بس کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بس ہچکولے کھاتی ہوئی نمودار ہوئی۔ بس رکی تو ایک جم غفیر اس پر جھپٹ پڑی۔ میں نے اس بھگدڑ میں اپنا راستہ بناتے ہوئے بڑی ذلالت کے ساتھ آخر کار پس میں چڑھ ہی گیا۔ ذرا سانس سنبھلی تو دیکھا کہ یہ بس نہیں بلکہ مہاجروں کو لے جانے والا کوئی اور چیز ہے۔ نہ بیٹھنے کی جگہ، نہ کوئی سلیقہ بس مرد زنانے میں بیٹھا ہے اور عورتیں کھڑی ہیں۔ کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو کوئی اپنا غصہ کنڈکٹر پہ اتارتا ہے۔ اسی بھگدڑ سے بچنے کے لئے میں شیشے کی طرف کھسکا۔ اپنا دھیان بھٹکانے کے لئے میں نے شیشے سے باہر کا نظارہ شروع کیا۔ ایک جگہ پر میری نظر ایک عوامی پارک پر پڑی، دیکھا تو پارک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ بڑی توجہ سے دیکھا تو جن لوگوں نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء لے گئے تھے۔ کھانے بعد وہ کچرا ادھر ادھر ڈالتے ہیں۔ کسی کو کوئی پروا بھی نہیں ہے کہ یہ گندا ہو جائےگا۔ بس اپنی مستیوں میں مشغول ہیں۔ ایک عجیب سی سوچ میں، میں پڑ گیا کہ یہ ملک جس کی آزادی کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں تھیں ہم اسے اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہے ہیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہ میں ہماری غلطیاں نظر ہی نہیں آتیں بلکہ ہم اپنی غلطیوں کا ڈھیر دوسروں پر ڈالنے کے عادی ہیں۔

پاکستان کی گندہ ترین علاقوں میں وہ علاقے سر فہرست ہیں جسے اللہ پاک نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم نے ان کے حسن کو خود اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کی ٹھان لی ہے کیونکہ ہم جب ان علاقوں میں سیر و سیاحت کے لئے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے وہ گندگی چھوڑ آتے ہیں جو ہزار سالوں میں بھی ہمارے چاہنے سے ختم نہیں ہوتی۔

ہم جو ہر جگہ گندگی پھیلاتے ہیں، ہماری گلیاں، کوچے جو گندگی اور غلاظت سے بھرے پڑے ہیں یہ پوری دنیا میں ہماری عکاسی کرتی ہے کہ ہم کتنے مہذب اور صاف ستھرے لوگ ہیں۔ خدارا اس ملک کی حفاظت کیجئے اپنے لئے نا سہی لیکن اپنے آنے والی نسلوں کے لئے۔ اگر ہم اسی طرح اپنا رویہ جاری رکھیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں تا قیامت بد دعائیں دیں گی اور ہمیں کوسیں گی۔

اس ملک کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ اس کو صاف ستھرا رکھنا ہمارا اولین فریضہ ہے چاہے وہ گندگی ہو یا کرپشن ہ میں ہر حال میں اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے ملک کی عناصر کے خلاف لڑنے اور ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فر مائے۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani