Kya Hamare Bachay Mehfooz Hain?
کیا ہمارے بچے محفوظ ہیں؟
بچے کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ یہی بچے آنے والے وقتوں میں مستقبل سنوارتے ہیں۔ بچے کسی ملک و قوم کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کی سفر میں اہم کردار بچے ادا کرتے ہیں۔
کیا ہمارا معاشرہ بھی بچوں کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں بچے محفوظ ہیں؟
معاشرہ تب مسائل کا شکار بنتا ہے جب بے روز گاری، غر بت اور لا پرواہی اپنی اپنی عروج پر ہوں۔ ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں کی ضد میں ہے لیکن ان برائیوں میں جنسی زیادتی زیادہ عروج پر ہے اور جنسی زیادتی میں خاص کر بچوں سے جنسی زیادتی ہے۔ اور اس کی شرح میں سال در سال نہ رکنے والا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں واحد ادارہ جو بچوں کی جسمانی تشدد اور جنسی استحصالی پر اعداد و شمار اکٹھا کر رہا ہے وہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا نام ساحل ہے۔ کوئی حکومتی ادارہ نہ تو اس میں فعال ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دل چسپی رکھتا ہے۔ میڈیا پر بھی کسی قسم کی تعلیم اس بارے میں نہیں دی جاتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس قسم کے موضوعات پر بات کر کے ان کے حل کی تدابیر سوچیں۔
پاکستان میں دن بہ دن اور سال در سال بچوں کیساتھ جسمانی زیادتی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے لیکن یہ بات مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ بچوں کیساتھ بدفعلی کرنے والے یہ قبیح الذات لوگ ہوتے کون ہیں؟ کیا یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے؟ کیا ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟ کیا ان کے اپنے بچے نہیں ہوتے؟ کیا ان کو اللہ پاک سے ڈر نہیں لگتا؟ کیا ان کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا جو یہ سب کرتے وقت اسے ملامت کردیں؟ دماغ میں سوال بہت گردش کرتے رہتے ہیں لیکن جواب دینے والا کوئی نہیں ملا آج تک۔ ایسا کوئی حکمران نہیں ہے یا کوئی ایسا قانون نہیں جو ان کم ذات لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر ان سے پوچھیں یا ان کو عبرت ناک سزا دیں۔ کون دےگا؟ کب دیگا؟ دیکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ ایسا کوئی قانون بنے گا اور اگر ایسا قانون بن بھی جائیگا تو اس پر عمل کون کریگا۔
پاکستان میں کم عمر بچوں کیساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے بڑھتے واقعات کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم (ساحل) نے اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم ملک کے بڑے شہروں میں شروع کی گئی ہے۔ جس میں بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں۔
اگر ہم پچھلے تین سالوں میں بچوں کی ساتھ بد فعلی ہونے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہو جائیگا کہ ہم اس قبیح عمل کے کس درجے پر ہیں؟ ساحل کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں یعنی 2017، 2018، 2019 میں سال در سال بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2018 میں تقریباََ 3,832 واقعات پیش آئے تھے جو 2017 کے نسبت 11 فیصد زیادہ تھے۔ مگر سال 2019 میں تقریباََ 4,580 واقعات پیش آئے ہیں۔
روزنامہ ڈان کے ایک رپورٹ کے مطابق جو حال ہی میں شاءع ہوا تھا کہ سال 2018 میں صرف لاہور شہر میں 141 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساحل کے مطابق پاکستان میں ہر روز 10سے لےکر 13 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ محض پچھلے تین سالوں میں بچوں سے زیادتی کے تقریباََ نو ہزار سے زائد واقعات پیش آئے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں سے زیادتی کے اس قبیح عمل کو فلمایا بھی کیا گیا ہے۔ زیادتی کے بعد 31 فیصد بچوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے 66 فیصد واقعات دیہات میں جبکہ 34 فیصد واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے ہیں۔
اب یہ واقعات زیادہ تر کہاں پیش آتے ہیں؟ یہ واقعات سڑکوں پر نہیں، گھروں میں نہیں، اغواء کرکے نہیں آتے بلکہ 75 فیصد واقعات سکولوں، مدرسوں اور درسگاہوں میں پیش آئے ہیں۔ اب والدین پریشان ہوگئے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے کہاں بھیجے؟ اساتذہ اور مولویوں سے تو اب اعتماد اٹھ گیا ہے۔ 97 فیصد مسلمان آبادی والے ملک یعنی پاکستان میں بچے بچیاں جسمانی تشدد و زیادتی کے شکار ہورہے ہیں۔ عوام نعروں جبکہ حکمران بھاشن دینے اور جھوٹے وعدوں میں سر گرم عمل ہیں۔ ادارے شائننگ سٹار بننے اور میڈیا ریٹنگ کے چکروں میں الجھا پڑا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس مسئلے میں الجھی ہوئی ہے کہ یہ مسئلہ کیسے ختم ہوگا؟ ایک ریسرچ کے مطابق ایشیاء میں ہر برس دس لاکھ بچے جنسی زیادتی کے شکار ہوتے ہیں۔ درج کئے گئے رپورٹ پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمارا مستقبل ہمارے بچے کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس قبیح عمل کو ختم کرنے کا صرف یہی علاج ہے کہ ان کمینے لوگوں کو جو بچوں سے زیادتی کرتے ہیں کو سر عام سنگسار کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود قرآن میں فرماتا ہے کہ:
"زنا کار مرد و عورت میں سے ہر ایک کو سو(100) کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہر گز ترس نہیں کھانا چاہئے اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو، اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہئے "۔ (سورۃ نور آیت ۲)
بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسز میں مسلسل اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون بنا کر سخت ترین سزا کا اجرا کرنا ہوگا۔ زینب اور اسماء جیسے واقعات سخت سزا سے روکے جا سکتے ہیں۔ عبرت ناک طریقے سے سرِ عام پھانسی، سنگسار یا سرِ عام قتل کرنا اس کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ ےہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں اس کی سزا سرِ عام پھانسی دینا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اپنے مفاد کا قانون بن سکتا ہے تو عوام کے مفاد، بچوں کی حفاظت کے اقدامات، مجرم کیلئے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟
والدین کا کردار یہاں بہت زیادہ اہم ہے۔ اب وقت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں۔ انھیں زیادہ وقت دیں۔ ان سے دوریاں ختم کرکے دوستی کے رشتوں کو پروان چڑھائیں تاکہ تیسرا کوئی اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔ بہت سی واقعات میں قریبی رشتہ دار، پڑوسی، محلے دار، جاننے والے ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ اپنی اولاد کو حفاظتی تدابیر سے روشناس کرائیں تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکے۔ کیونکہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر پھنسا دیا جاتا ہے۔ آج اگر ہم خود اپنے معالج نہیں بنیں گے تو بعد میں بغیر پچھتا وے کے کچھ ہاتھ نہیں آ ئے گا۔
قومی اسمبلی نے زینب الرٹ جوابی رد عمل اور بازیابی ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ بچوں کے تحفظ کیلئے ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس قانون پر کون اور کتنا عمل کیا جائے گا؟ اس نا لائق حکمرانوں کی کارکردگی ہم نے بہت دیکھ لی اب ہمیں اللہ میاں سے امید ہے کہ وہ واحد ذات ہے جو ناممکنات کو ممکنات سے بدل سکتا ہے۔ وگرنہ ہم ہاری ہوئی قوم ہے۔ ہم احمق ہیں اور احمق ہی رہیں گے۔ ہم اداس نسل ہیں جو اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتی ہے نہ ہی اپنے بچوں کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ نعرے خوب لگا سکتی ہے۔