Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasar Iqbal Azad
  4. Iqbal

Iqbal

اقبال

برصغیر کی تاریخ میں انیسویں صدی ایسی شخصیات کی صدی رہی ہے جن کے نام سیاسی، سماجی، تاریخی، ادبی، فنی، موسیقی اور زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جنھیں دنیا کی تاریخ میں ایک الگ مقام حاصل ہے۔ یہاں اگر میں ان کے نام اور کام گننا شروع کر دوں تو شاید ان پر ایک پوری کتاب لکھوں لیکن میں ایک ایسی ہستی کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جن کی سوچ اور قلم نے برصغیر کے لوگوں میں زندگی جینے کا فن، آزادی کی اہمیت اور لکھت پڑھت کی جستجو کو ہوا دی، جنھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں طبع آزمائی کی اور اس میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی چاہے وہ شاعری ہو، فلسفہ ہو، تاریخ دانی ہو، وکالت ہو یا سیاست ہو ان کا ایک الگ رتبہ اور نام ہے۔

ڈاکٹر شیخ علامہ محمد اقبال بن شیخ نور محمد بن شیخ محمد رفیق بن شیخ جمال الدین بن شیخ اکبر بن بابا لول حاج (جو پندرھویں صدی عیسوی میں مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ علامہ اقبال نے اپنے والد سے سن رکھا تھا کہ ان کا تعلق کشمیری برہمنوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا، گوت (قوم یا قبیلہ) ان کی سپرو ہے اور ان کے جد اعلیٰ جنھوں نے اسلام قبول کیا بابا لول حاج یا لولی حاجی کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ لول حاج کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا جو قریباََ سوا دو سو سال پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔

اقبال کی تاریخ ولادت عرصہ سے ایک متنازعہ فیہ معاملہ رہا ہے اور اس سلسلہ میں کئی سَن بیان کئے جاتے رہے ہیں۔ اقبال کی زندگی کے دوران جو مضامین یا کتابیں ان پر تحریر کی گئیں، ان میں اقبال کا سَن ولادت 1870ء، 1872ء، 1875ء، 1876ء اور 1877ء بتایا جاتا رہا ہے۔ مصنفین میں سے چند اقبال کے حلقہ احباب میں سے تھے لیکن بیشتر انھیں ذاتی طور پر جانتے نہیں تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال اپنے حالات زندگی کی تشہیر میں دل چسپی نہ رکھتے تھے۔ اسی لئے 1922ء میں جب فوق نے ان سے بہ ذریعہ خط حالات طلب کئے تو اقبال نے جواب دیا کہ "باقی رہے میرے حالات سو ان میں کیا رکھا ہے۔۔ "

قیامِ یورپ کے دوران 1907ء میں جب اقبال نے ڈاکٹریٹ کی سند کی تحصیل کے لئے اپنا تحقیقی مقالہ (ایران میں فلسفہ ما بعد الطبیعیات کا ارتقاء) میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا تو اس کے ساتھ اس یونیورسٹی کے دستور کے مطابق ایک خود نوشت مختصر سوانحی خاکہ بھی منسلک کیا جس میں انھوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا "میں 3 ذی القعدہ 1294ھ بہ مطابق(1876ء) کو سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوا"۔

اس تحریر سے ظاہر ہے کہ انھوں نے ہجری سَن میں اپنی ولادت کی تاریخ، ماہ و سال کے ساتھ قوسین میں اس کا متبادل عیسوی سَن یعنی 1876 اندازے یا تخمینے کے مطابق دیا، مگر اسے صحیح طور پر پوری تفصیل کے ساتھ عیسوی تاریخ، ماہ و سال میں تبدیل کرنے کی تکلیف نہ کی۔ بعد میں 1931میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کی خاطر انگلستان جانے کے لئے پاسپورٹ بنوایا تو اس میں بھی انھوں نے اپنا سَن ولادت 1876ء تحریر کیا۔ اقبال کے حصولِ تعلیم کی خاطر یورپ جانے کا پاسپورٹ جو 1905 میں بنوایا گیا ہوگا جو کہ موجود نہیں ہے، ممکن ہے اس میں بھی سالِ ولادت 1876 ہی درج ہو۔

جمعہ 3 ذی قعد 4921ء (9 نومبر 1877) کے دن سیالکوٹ کی فضا میں ابھی نمازِ فجر کی اذانیں شروع ہوئیں تھیں کہ شیخ نور محمد کے چھوٹے سے یک منزلہ مکان کی تاریک کوٹھڑیوں میں سے کسی ایک میں چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں ایک سرخ و سفید پیارا سا بچہ پیدا ہوا جس نے گھر کے مکینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ چالیس سالہ نور محمد نے نومولود بچے کا نام محمد اقبال رکھا۔ ننھے منے اقبال کے بڑے بھائی عطا محمد تب اٹھارہ ونش کے تھے اور غالباََ شادی شدہ تھے، بہن فاطمہ بی جو کہ شائد اس وقت شادی شدہ تھی، بہن طالع بی جو اس وقت سات سال کی تھی۔ مکان میں ان کے چچا شیخ غلام محمد بھی اپنے اہل و عیال کے رہتے تھے۔ اس غریب یا متوسط الحال خاندان میں ننھا منا اقبال اپنی والدہ امام بی بی کے سایہ شفقت میں رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا۔ بجلی کی سہولت سے محروم اس گھر کے محدود دالان میں اس نے چلنا سیکھا اور پھر تعلیم کے آغاز کے بعد اسی گھر کی تاریک کوٹھڑیوں میں چراغ کی روشنی میں اس نے ابتدائی اسباق ازبر کئے۔

ایک دن مولانا میر حسن مولانا غلام حسن کے درس گاہ (جہاں اقبال ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے) میں آئے اور اقبال کو وہاں درس لیتے دیکھا۔ وہ اُن کی کشادہ پیشانی، متین صورت اور بھورے بالوں سے بے حد متاثر ہوئے اور مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ شیخ نور محمد کا بچہ ہے تو ان کے پاس جا پہنچے۔ وہ شیخ نور محمد کو خوب جانتے تھے۔ اس لئے انھیں سمجھایا کہ اس بچے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے۔ لہذا اسے درس گاہ سے اٹھوا کر ان کی تحویل میں دیا جائے۔

شیخ نور محمد نے تو کچھ دن پس و پیش کیا مگر سید میر حسن کے اصرار پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا، چنانچہ اقبال نے اپنے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں سید میر حسن کے ہاں مکتب میں اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال بعد سید میر حسن چونکہ سکاچ مشن سکول میں بھی پڑھاتے تھے اقبال کو اپنے ساتھ ہو لئے اور وہاں داخل کرا دیا۔ اسی طرح اقبال نے اپنی پرائمری تعلیم سکاچ مشن سکول سے، کالج مرے کالج سے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے 1905ء میں یورپ چلے گئے۔

ایم اے کا امتحان دینے کے بعد اقبال 31 مئی 1899ء کو اورئنٹل کالج میں 27 روپے اور چودہ آنے ماہوار تنخواہ پر میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی کچھ مدت کے لئے دو سو پچاس روپے ماہوار تنخواہ پر اورئنٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال نے یکم جنوری 1901ء سے چھے ماہ کی بِلا تنخواہ رخصت لی اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی سال اقبال اسسٹنٹ کمشنری کے امتحان میں بھی کامیاب ہوگئے مگر میڈیکل بورڈ نے طبی نقطہ نگاہ سے ان کو دائیں آنکھ کی بینائی کی کمزوری کے باعث انھیں اَن فِٹ قرار دیا۔ اقبال کی دائیں آنکھ کی بینائی بچپن ہی سے کمزور تھی۔ اقبال کے اپنے بیان کے مطابق یہ آنکھ دو سال کی عمر میں ضائع ہوگئی تھی۔ اقبال کو ان کی والدہ نے بتایا تھا کہ دو سال کی عمر میں انھیں جونکیں لگوائی گئی تھیں جس کی وجہ سے ان کی آنکھ زائل ہو چکی تھی۔

جب اورئنٹل کالج میں بطور میکلورڈ عربک ریڈر ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو ان تقرر دوبارہ گورنمنٹ کالج میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی ہو اجس کا چارج انھوں نے 3 جون 1903ء کو لیا۔ مدت ملازمت 03 دسمبر 1903ء تک تھی لیکن ختم ہونے پر اس میں چھے ماہ تک توسیع کر دی گئی۔ اس مدت کے اختتام پر انھیں مزید توسیع دی گئی اور وہ فلسفہ پڑھانے پر مامور ہوگئے۔ آپ اسی منصب پر فائز تھے جب یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے انھوں نے یکم اکتوبر 1905ء سے تین سال کی بِلا تنخواہ رخصت لی۔

اقبال 25 دسمبر 1905ء کو کیمبرج پہنچے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ٹرینیٹی کالج میں ان کے داخلہ کا انتظام پہلے ہی سے بہ ذریعہ آرنلڈ ہو چکا تھا۔ کیمبرج میں اقبال کچھ مدت کیسل سٹریٹ پر ٹھہرے اور پھر ہنٹنگڈن روڈ پر سکونت اختیار لی۔ کیمبرج یونیورسٹی کا اکادمی سال مائیکلمسن ٹرم یعنی یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔ پس اقبال کا یونیورسٹی میں رہائشی سال اسی ٹرم سے شروع ہوا۔

اقبال کی زندگی اور شخصیت تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور ان کی ابتدائی زندگی یعنی 1877 سے لے کر 1905 تک، دوسرا دور 1905سے لے کر 1908 جو انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ میں گزارا، تیسرا اور آخری دور جب وہ یورپ سے لوٹ کر آئے اور باقی ماندہ زندگی سیاست اور شاعری میں گزاری یعنی 1908 سے لے کر 1938 تک۔ ہر دور میں اقبال ایک الگ روپ سے سامنے آئے اور ایک الگ حیثیت سے ابھرے۔ اقبال کی زندگی پر کچھ لوگوں نے بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

شاعری میں وہ ولیم ورڈز ورتھ سے حد درجے متاثر تھے، خود اقبال نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ "اگر میں ورڈز ورتھ کو نہ پڑھتا تو شاید دہریت پسند ہو جاتا"۔ شاعری میں وہ داغ دہلوی کو اپنا اتالیق تسلیم کرتے ہیں اور غالب کو بھی خوب سراہتا ہے۔ تصوف میں مولانا روم سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور جابجا اپنی شاعری میں ان کی مدح سرائی کی ہے۔ فلسفے میں جرمنی کے مشہور زمانہ فلسفی فریڈرک نطشے کے مقلد ہیں، نطشے نے فوق البشر جبکہ اقبال نے اس کے بر خلاف مرد مومن کو انسانیت کے لئے فلاح کا کردار متعین کیا ہے۔ اقبال کا ہر روپ انتہائی نرجستہ اور نرالا ہے۔ جاوید نامہ میں نطشے پر ایک نظم لکھی ہے جس میں وہ مولانا روم سے کچھ پوچھتے ہیں اور وہ اقبال کو جواب دیتے ہیں، ملاحظہ ہو:

من بہ رومی گفتم ایں دیوانہ کیست

گفت! ایں فرزانۃ المانویست

در میانِ ایں دو عالم جائے اوست

نغمۃ دیرینہ اندر نائے اوست۔۔

میں نے رومی سے پوچھا ئی دیوانہ کون ہے

انھوں نے کہا یہ جرمن دانا (نطشے) ہے

اس کا مقام ان دونوں جہانوں کے درمیان (اعراف) میں ہے

اس کی بانسری میں وہی قدیم نغمہ ہے۔۔

اقبال ایک ایسی شخصیت ہے کہ اگر ان پر لکھنے کوئی بیٹھ جائے تو لکھتے لکھتے صدیاں بیت جائیں گی لیکن اقبال کی سیرت اور کردار پر لکھنا ختم نہیں ہو جائے گا۔ اقبال کی مثال ان کی مقلدوں کے لئے ایک یونیورسٹی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ اقبال بہ طورِ فلسفی، شاعر اور سیاست دان بہت لوگوں کی زندگیوں پر مختلف نقوش چھوڑ رہے ہیں۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال وکالت سے دستبردار ہو کر بھوپال کے نواب سے وظیفہ لیتے تھے۔ وہ بیشتر مشہور صوفی علی ہجویری کے درگاہ پہ جاتے تھے اور گھنٹوں ان کے مزار کو دیکھتے، بناء کچھ کہے بھیگی پلکوں سے واپس لوٹتے۔ کچھ مہینے کی علالت کے بعد آخر کار مرشد علامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو 61 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور لاہور میں بادشاہی مسجد کے دروازے پر سپرد خاک کر دیے گئے۔

Check Also

313 Musalman

By Hussnain Nisar