IMF Jamhuria Pakistan
آئی ایم ایف جمہوریہ پاکستان
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر تقریباََ آدھی سے زیادہ دنیا مفلوج ہوگئی تھی۔ معیشتیں پوری طرح سے بیٹھ گئیں تھیں۔ خاص کر برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان، ہانگ کانگ اور کوریا۔ جو ممالک مالی لحاظ سے تھوڑے مستحکم تھے انہوں نے ان مفلوج ممالک کی کافی مدد کی۔ انہیں قرضہ دیا۔ پاکستان نے بھی جرمنی کو تقریباََ پچاس ملین ڈالر کا قرضہ دیا تھا۔ ان ممالک کی ابتر صورتِ حال کو دیکھ کر امیر ممالک نے 1944 میں آئی ایم ایف کا قیام کیا۔
آئی ایم ایف کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ غریب ممالک کو ان کی ضرورت کے مطابق قرضہ دیتا ہے اور پھر سود سمیت واپس لیتا ہے لیکن جو بھی ملک اس کے قرض کو واپس کرنے کے بس میں نہیں ہوتا تو پھر وہ اس ملک میں اپنی من مانیاں شروع کرنے لگتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اس ملک کو وہ ماننا پڑتا ہے۔
آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔ پاکستان کو جب بھی مشکل حالات کا سامنا ہوا ہے تو وہ آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے۔ پہلے پہل آئی ایم ایف نے بنا کسی روک ٹوک قرضہ دیا ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے آئی ایم ایف اپنی شرائط پر قرضہ دیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو انتہائی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اور اب بھی ان مشکلات میں آئے روز بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے ہیں اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا تھا۔ ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کیلئے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔ فوجی صدر ضیاءالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔ پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں آئی ایم ایف کے ایک پروگرام میں پاکستان نے شرکت کی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ ن کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جس کا براہ راست اثر ہمیشہ کی طرح عام عوام پر بری طرح پڑے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے لے کر اب تک متعدد بار پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے اور بھرپور قرض لیا ہے اور اس کے بدلے میں پاکستانی عوام کو قربانی کا بکرا بننا پڑا ہے۔ پاکستان پر جب بھی مشکل آئی ہے تو سر پھٹ دوڑ کے آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے اور بدلے میں پاکستانی عوام کا سودا دے کر آتا ہے۔ پیسے پیسے کے لئے ہم آئی ایم ایف کے محتاج ہیں، اس کے بدلے میں آئی ایم ایف ہم پر جو بھی ظلم کرنا چاہے اس کو آزادی حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہم ان کے مقروض ہیں اور وہ ہمارے مالک۔
یہاں یہ بات زیرِ غور لانی ہوگی کہ جب بھی آئی ایم ایف نے فیصلے کئے ہیں اور جیسے بھی فیصلے کئے ہیں سب کے عوام پر انتہائی برے اثرات پڑے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہماری اشرافیہ کی عیاشیوں میں ذرہ برابر اثر پڑا ہو۔ پاکستان کا سرکاری اور دفتری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسے آئی ایم ایف جمہورہ پاکستان کہنا غلط نہ ہوگا کیوں کہ یہاں اسلامی قوانین نہیں بلکہ آئی ایم ایف جیسا چاہے اپنے قوانین لاگو کرتا ہے۔
یہ بھی غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اب آئی ایم ایف کی ملکیت ہے اور یہاں دیہاڑی دار مزدور سے لے کر بڑے افسر تک سب آئی ایم ایف کے لئے کام کرتے ہیں۔ سابقہ قرضوں کی ادائیگی تو ہمارے بس میں ہے نہیں لیکن آئے روز نئے قرضے لے کر عوام پر بے تحاشہ بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ جب بھی ہمارا حکمران قرض لیتا ہے تو وہ اسے اپنی عیاشیوں میں اڑاتے ہیں، بےتحاشہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والا عوام کا پیسہ حکمران بیرونی ممالک لے جا کر اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں امیر امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب ترین۔ کوئی نظام نہیں ہے، کسی کے پاس ملک کو صحیح سمت پر لے جانے کی پالیسی نہیں ہے۔ ایک گلا سڑا نظام ہے جس میں ہم شروع سے پس رہے ہیں۔ قانون صرف غریب کے لئے ہوتا ہے امیر تو یہاں اپنا قانون خود بناتا ہے۔ انا پرست اور خود غرض حکمران ہم پر زبردستی مسلط کئے جاتے ہیں اس ملک میں عوام کی مثال کچرے جیسی ہے۔
آئی ایم ایف جب بھی قرض کی نئی قسط دینے کے لئے شرائط رکھتے ہیں تو عوام کو مشکلات اور تکالیف دینے کے لئے آج تک آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا ہے کہ حکمران بھی اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کریں، ایک معمولی 16 سکیل افسر کو ایک دورے کے لئے جو مراعات ملتی ہیں وہ ایک غریب خاندان کے سال بھر کا خرچہ ہوتا ہے۔ ایک جج اور جرنیل کو جتنی مراعات ملتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ پرانے زمانے کے بادشاہ ہوں جیسے۔ جب بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے کے لئے کوئی وزیر میڈیا پر بیٹھتا ہے تو سب سے پہلے یہ کہتا ہے کہ ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
ان کے مشکل فیصلے یہ ہوتے ہیں کہ ہم پٹرول 50 روپے، آٹا 30 روپے، دالیں 20 روپے مہنگا کریں گے۔ ارے بھئی یہ تو انتہائی آسان فیصلے ہیں جب بھی من چاہے آپ مہنگائی کے بم پھوڑ سکتے ہیں کیوں کہ عوام تو ہے ہی مردہ ضمیر وہ تو مزاحمت کرتے ہی نہیں۔ مشکل فیصلے تو یہ ہوتے ہیں کہ وزرا اور حکمران اپنی شاہ خرچیاں کم کریں، پروٹوکول ختم کریں اور جو بے تحاشا مراعات کا بےجا استعمال کرتے ہیں اس کو کم کریں یہی مشکل فیصلے ہیں۔
لیکن آئی ایم ایف بھی جب بھی ظلم کرتا ہے تو غریب عوام پر کرتا ہے کیوں کہ ان کی دکان انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بدولت چلتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں جنم لیتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی معاملات پر اتنا اثر رسوخ رکھتا ہے تو پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے اور جب ان کو پتہ ہے کہ ہماری بات کو پاکستان کے امراء ٹال نہیں سکتے تو وہ ان امراء کی عیاشیوں کو ختم کیوں نہیں کرتے؟