Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Watan Mein Be Watan

Watan Mein Be Watan

وطن میں بے وطن

ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ پاکستان بطور ایک اسلامی ریاست کے قائم ہوا یا کہ ثقافتی، جغرافیائی اور تہذیبی وجوہات کی بناء پر کرہ ارض پر نمودار ہوا کہ یہ بحث بالکل لا حاصل ہے اور اس کا نتیجہ ایک عام قاری بھی برآمد کر سکتا ہے جب وہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کو دیکھے یا قائداعظم کے فرمودات کو ان کے رہن سہن کو، ان کے لباس کو دیکھے، ان کی تقاریر کو پڑھے اور یا پھر مولانا ابوالکلام آزاد کے خطبات کا مطالعہ کرے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سیکنڈوں میں قاری حاصل کر لے گا۔ بس شرط یہ ہے کہ قاری مذہبی و سیاسی و لسانی و قومیتی تعصبات کی عینک کو ذرا دیر کے لیے کہیں گُم کر دے۔

پاکستان کا جغرافیہ دیکھیں تو اس میں چار بڑی قومیں پائی جاتی ہیں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون۔ گویا پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اس میں کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ کئی قوموں کا وجود تہذیبی و ثقافتی طور پر صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ یعنی پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ہے۔ ان قوموں کو ایک قوم بنانے کے لیے پاکستان کا وفاق ہے جو اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالتا ہے۔ پاکستانی تاریخ پر ایک سرسری سی نظر ہی دوڑا لی جائے تو معلوم ہو جا تا ہے کہ وفاق نے قوموں کو ایک قوم بنانے میں کوئی ٹھوس اور جاندار قدم نہیں اٹھایا یا دانستہ نہیں اٹھایا جاتا مبادا کرسی سے ہاتھ دھونے پڑیں۔

پاکستان کے لوگ خود کو جتنے غیر محفوظ آج سمجھتے ہیں، متحدہ ہندوستان میں بھی نہیں سمجھتے ہوں گے۔ پنجابی بلوچستان نہیں جا سکتا اور بلوچی پنجاب یونیورسٹی میں بغیر خوف کے تعلیم نہیں حاصل کر سکتا۔ گوادر کے باسی سوئی گیس کو ڈھونڈتے ہیں اور پنجاب کے باسی اپنی پنجابی زبان کو تلاش کرتے ہیں۔ ہندو، عیسائی، احمدی اقلیتیوں کے لیے کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہا، ان کا دن کا چین اور رات کا سکون تتر بتر کر دیا گیا ہے۔

چاروں قوموں کی ثقافت، کھیل کود، لوک میلے، حکایات و روایات، زبان، بودو باش اور کھانوں کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔ یہاں تک کہ راقم خود بھی اپنی مادری زبان کو بھولتا جا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں بچے کی قینچی جوتی ٹوٹ گئی تو میرے ذہن میں اپنا بچپن آیا جب گاؤں میں ایسی ہی جوتی ٹوٹ جانی تو موچی کے پاس ٹوٹا حصہ نیا خرید لینا، مجھے اس کا نام یاد نہیں آ رہا تھا۔ بہت زیادہ استغراق کرنے کے بعد اچانک میرے چہرے پر معصوم سی مسکراھٹ پھیل گئی جب لفظ "ودراں" ذہن میں یاد آیا جب موچی سے یہ نئی مل جاتی تھیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کی قومیں ایک نہ بن سکیں بلکہ الٹا ان میں مزید فاصلہ پیدا ہو رہا ہے؟ اس کا قصور وار کون ہے؟ حقیقی پاکستان کب معرضِ وجود میں آئے گا؟ پاکستانی کب آزا د ہوں گے؟ کب خوف کے بُت ٹوٹیں گے؟ کب بے وطنوں کو ان کا وطن واپس ملے گا؟ شاید قائداعظم اسی صدمے کی وجہ سے بہت جلد دارفانی سے کوچ کر گئے تھے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ پاکستان کی شکل میں"منزل اُنہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے"۔

سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستان میں میر جعفروں کی کھیپ ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جو قتل و غارت ہوئی، اسکے پیچھے خفیہ ہاتھ بھی انہی میر جعفروں کا تھا۔ اس کھیپ نے پاکستان پر اسلامی ٹھپہ لگوانے کے لیے اپنی شاطرانہ ذہنیت سے آگ لگائی۔ اس کھیپ کا یہاں کی چار قوموں سے نہ کوئی ثقافتی تعلق تھا، نہ تہذیبی اور نہ لسانی۔ بلکہ یہ کھیپ مجموعی طور پر ہندؤوں کے کلچر سے متاثر تھی۔ اس کھیپ کے کارندے الہ آباد، لکھنؤ، دہلی، علی گڑھ اور آگرہ جیسے اقلیتی مسلمانوں کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں میں اقلیت ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ نوکریاں، وزارتیں وغیرہ نہیں ملتی تھیں۔ یوں روزگار کے حصول کے لیے انہوں نے قائداعظم کے پاکستان پر اسلامی ٹھپہ لگا کر پاکستان کے مسلمانوں پر اپنی حکومت کرنے کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ فسادات کی آگ بھڑکائی تاکہ دو قومی نظریہ کا ثبوت مہیا ہو سکے۔ اس نظریے کے پیچھے چاروں صوبوں کو لگا کر یہ کھیپ خود سکھوں اور ہندؤوں کی متروکہ املاک پر قبضے کر بیٹھی۔

اسی کھیپ نے ملک کی جڑوں سول و جوڈیشل بیور وکریسی کا کنٹرول سنبھالا، مقابلے کے امتحانات اسی کی ذہنیت کے پیش نظر منعقد کیے جاتے ہیں اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بیوروکریسی میں شامل کرتی آ رہی ہے۔ میڈیا خصوصاََ جنگ میڈیا بھی اسی کھیپ کا ہے۔ نصاب تعلیم پر اس کا کنٹرول ہے۔ ٹی وی ڈرامے، فلمیں، اشتہارات کے ذریعے یہ اقلیتی کھیپ اپنے کلچر کو چاروں صوبوں میں پروان چڑھا چکی ہے۔ اس کھیپ کی وجہ سے یہاں کی حقیقی باشندے اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو کر رہ گئے ہیں۔ مگر کسی سیاستدان، کسی حکومت، کسی جنرل نے بے وطنوں کو ان کا وطن واپس دلوانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو اس پر غدار کا لیبل لگا دیتے ہیں جیسے باچا خان پر یا اکبر بگٹی پر لگایا گیا تھا۔

سمجھ سے باہر ہے کہ جب یہاں کی قوموں کو اچھوت کا درجہ دیا جا رہا ہے، ان کوایک نُکرے لگایا جا رہا ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہم آزاد ہیں؟ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم پر غیر قومی کھیپ مسلط کر دی گئی ہے اور ہمارا اپنا وجود غیر قومی گروہ کے آگے گروی رکھ دیا گیا ہے؟ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بھرپور کوشش بھی کی تھی اور وقتی طور پر اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی مگر اچانک ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا جس سے ظاہر ہے کہ اس غیر ملکی کھیپ کی جڑیں بہت دُور تک پیوست ہو چکیں ہیں۔ مسلح افواج ہی سے امید ہے کہ وہ پاکستانیوں کو حقیقی آزادی دلوائیں گی کہ نصیر اللہ بابر جیسے گھبرو افواج میں ابھی ہوں گے۔

گھر بنائیں گے کبھی ہم بھی کنارِ دریا
آج گو ہم کو میسر کوئی قطرہ بھی نہیں

Check Also

Guzarte Waqt Ka Sabaq

By Ismat Usama