Technical Education Ki Ahmiyat o Afadiat
ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اہمیت و افادیت
کسی ملک کا نظام تعلیم وہ واحد ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کو ایک قوم ایک مُٹھ کی شکل میں ڈھالتا ہے اور یا پھر ہجوم کی شکل دیتا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہوتی ہے جو برداشت، بھائی چارہ، انسان دوستی، منطق پسندی، انصاف پسندی، میرٹ، روشن خیالی اور رحم دلی کے جذبات نونہالوں میں پیدا کرتی ہے۔
جوں جوں پاکستان عمر میں بڑھتا جا رہا ہے اسی رفتار سے عدم برداشت، لسانیت، بے راہ روی، نا انصافی، سخت دلی، بیروزگاری، فرقہ واریت، دہشتگردی، دھوکہ دہی، فراڈ، ٹھگی بھی بڑھتی جار رہی ہے۔ سماج دشمن یہ سرگرمیاں واضح کر دیتی ہیں کہ یہاں کا نظام تعلیم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پھر بھی تعلیمی بندوبست میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ کوئی بھی ذی شعور اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ تبدیلی دانستہ نہیں کی جا رہی کیونکہ ہماری اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اپنی "قوم" کے لیے قومی تعلیم و تربیت پر مشتمل نصاب مرتب نہیں کر سکتی مبادا ان کی "قوم" سے حکمرانی چھن جائے اور پاکستانی قوم براجمان ہو بیٹھے۔
یہی وجہ ہے کہ نصاب میں سے جغرافیہ، ڈرائینگ، آرٹ، فلسفہ و منطق، فنون لطفیہ، مصوری کو غائب کر دیا گیا ہے اور یا پھر برائے نام انڈیل کر ان مضامین کو بھی مذہبی چوغہ پہنا دیا گیا ہے۔ کیوں؟ صرف مذہبی تعلیم کی راہ میں روڑے دُور کرنے کے لیے۔ عقل کی تہوں پر مزید پردے ڈالنے کے لیے، راکٹ کی سپیڈ کی تیزی سے دوسروں سے نفرت کرنے کے جذبات پیدا کرنے کے لیے۔ پچھہتر سالوں تک بھی ترقی پذیر ملک ہی ٹھہرنا بلکہ مزید تنزلی کی طرف جانا اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ہمارا تعلیم نظام کُلی طور پر ناکام ہے۔
چونکہ رسمی تعلیمی نظام کوئی پائیدار اور جاندار نتائج مرتب نہیں کر سکا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے تعلیمی سسٹم کو رسمی تعلیم کی جگہ بروئے عمل میں لایا جائے جو رٹہ سسٹم پر مشتمل نہ ہو، جو سوچنے سمجھنے، غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہو، جو تخیل کو ترقی دیتا ہو، جو عقل و دماغ کو استعمال میں لاتا ہو، جو ایجادات و دریافت کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہو، جس میں تعلیم کا اصل مقصد تحقیق، نئے راستوں کی تلاش اور معاشی و سماجی ترقی ہو، جو سیاست و اندھی عقیدت سے پاک ہو، جو جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کو بیک وقت بروئے عمل میں لاتا ہو، جو اپنی اور دوسرے لوگوں کی روزی روٹی اور روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہو۔ جی ہاں، ایسی خصوصیات پر مشتمل تعلیم کو ٹیکنیکل ایجوکیشن یا فنی تعلیم یا دستی کام کہا جاتا ہے۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن عموماً میٹرک کے بعد ٹیوٹا کے ووکیشنل اداروں میں مہیا کی جاتی ہے اور ان میں طلباء کے انتخاب کے لیے بیشمار کورسز مہیا کیے جاتے ہیں۔ ان کورسز میں الیکٹریشن، پلمبنگ، ویلڈنگ، آٹو مکینک، کارپینٹر، ٹیلرنگ، شیف، میٹل ورک، ووڈ ورک، ڈرافسٹمین، آئی ٹی، کمپیوٹر مکینک، ٹیکسٹائل، گلاس اینڈ سرامکس، کنسٹرکشن، ایگری کلچر، پرنٹنگ، گرافکس جیسے بیشمار کورسز شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ شارٹ ٹرم اور کئی ایک لانگ ٹرم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ کورسز کرکے کوئی بھی طالبعلم اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکتا ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان کورسز کی مانگ نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
والدین کو خصوصاََ اور طلبا و طالبات کو عموماً ٹیکنیکل تعلیم کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بیروزگاری پہلے ہی آسمان کو چھُو رہی ہے۔ حکومت سرکاری اداروں کے دوالے ہاتھ دھو کر بیٹھی ہے اور انہیں بوجھ قرار دے کر ان میں موجود آسامیوں ختم کررہی ہے۔ صحافی، رائیٹرز، کالمنسٹ، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء بیروزگار پھر رہے ہیں۔ ڈاؤن سائزنگ اپنے زوروں پر ہے، پرائیوٹائزیشن کا جن بند ہونے کی بجائے مزید آزاد پھر رہا ہے اور سرکاری اداروں کو ھڑپ کیے جا رہا ہے۔ ان سب حالات کے باوجود میٹر ک کے بعد رسمی تعلیم کو ترجیح دینا دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ویسے بھی رسمی تعلیم کی ڈگریوں میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ تعلیم تو بچوں کی صلاحیتوں پر مزید پہرے بٹھائے گی۔ اس میں سوائے اعتقادات انڈیلنا اور رٹہ سسٹم کے کچھ ہے ہی نہیں۔ کبھی نظریہ کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پرعقل کو استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی ہیروز کو چار صوبوں کے باشندوں کو قومی ہیروز بنا کر بتایا جاتا ہے۔ کبھی حب الوطنی کے نام پر اور کبھی سب سے پہلے پاکستان کے نام پر عوام کے جذبات و احساسات کو دبا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے عوام ہونا چاہیے کہ انہی کے دم سے پاکستان ہے۔
بچپن میں جب میں اپنے گاؤں کھیتوں میں فصلوں کو رمبے سے گوڈی دیتا تھا تو گوڈی دیتے وقت اپنے ہاتھ کو زخمی ہونے سے بھی بچاتا تھا، زمین کی گہرائی تک رمبے کو لے جانے کے لیے طاقت اور درست ضرب کا درست زاویہ لیتا، فصل کی ننھی مُنھی شاخوں کو رمبے کی ضرب سے بچاتا، گوڈی دیتے وقت آگے سرکتے وقت اپنے پاؤں کو فصل میں موجود شاخوں کو بچاتا، اگر کوئی پتھر نکلتا تو اسے ایک سائیڈ پر رکھتا کہ پتھریلی زمین فصل کے لیے نامناسب ہوتی ہے۔ گویا ایک گوڈی کے کام میں میری تمام صلاحیتیں استعمال ہوتی تھیں۔ ایسی ہی صورتحال ویلی میں مال ڈنگر کے لیے ٹوکے پر پٹھے کترنے یا چیرنی لگاتے وقت پیش آتی تھی۔ ایسی خصوصیات فنی تعلیم میں بروئے عمل آتی ہے۔ یہ صرف ٹیکنیکل تعلیم ہی ہے جو طالب علموں کے حواسِ خمسہ، جسمانی اعضاء، دل اور دماغ کو بیک وقت کام میں لاتی ہیں۔
ٹیکینکل تعلیم اور کام باریک بینی سے توجہ مانگتا ہے۔ ایسی تعلیم میں طالب علم چیزوں کو، اوزاروں کو، ان کی تفصیل، درست پیمائش وغیرہ کے لیے غور سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ تعلیم تخیل کو فروغ دیتی ہے۔ عمل سے پہلے خاکہ کو ذہن میں بنانے کی تلقین کرتی ہے۔ ٹیکنیکل تعلیم صرف اصول پر ہی استوار نہیں رہتی بلکہ یہ عمل مانگتی ہے۔ یہ بیک وقت اصول اور عمل کی تعلیم ہے۔ پند و نصائح سے زیادہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ کی بجائے عمل زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کا اثر براہ راست پہنچتا ہے۔ جبکہ رسمی تعلیم میں اصول اور عمل اکٹھے کبھی نظر نہیں آتے۔ اس لیے پڑھی لکھی جہالت کی اصطلاح وجود میں آئی ہے۔
فنی تعلیم ذوق جمال میں ترقی اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔ جب کوئی چیز گاہک کی ڈیمانڈ کے مطابق تیار کرکے دی جاتی ہے تو کاریگر میں خود اعتمادی، اطمینان پیدا ہوتا ہے اور ذہنی و نفسیاتی ارتقاء میں برکت پڑتی ہے جو کہ کامیابی کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ گویا فنی تعلیم میں رسمی تعلیم سے کہیں زیادہ خوبیاں موجزن ہیں۔ فنی تعلیم کی ان خصوصیات اور اہمیت کے پیش نظر چند لمحات کے لیے گہرائی میں جا کر ہم غوطہ لگائیں تو حاصل کلام یہ نکلے گا کہ پاکستان کے تمام مسائل کی بڑی وجہ رسمی تعلیم کی ڈگریاں ہیں جیسے عرف عام میں"وائٹ کالر جابز" کہا جاسکتا ہے۔ اگر ان مسائل کو ختم کرنا ہے تو ہمیں میٹرک کے بعد ٹیکنیکل تعلیم کی طرف اپنی نسلوں کو راغب کرتے ہوئے "بلیو کالر جابز" سے رجوع کرنا ہوگا!
اب سوال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ٹینکیکل تعلیم کی طرف جانے کی بجائے ڈگریاں تھما کر بیروزگار کرنے کی جانب کیوں گامزن ہیں؟ ہماری دانست میں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی سماجی اسٹیٹس ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، دانشور، اینکر پرسن۔۔ بنیں تاکہ وہ معاشرہ میں سر بلند کرکے چل سکیں۔ آمدنی زیادہ ہو۔ کام کرسی والا ہو۔ اچھے رشتے مل سکیں۔ یا دیگر لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ والدین پر "بابو گڈی سوہنی والیا" کا نفسیاتی اثر ہے۔ دوسری وجہ رشتہ داروں میں ناک کا مسئلہ آ جاتی ہے کہ لاہور جسے کالجوں کا شہر کہتے ہیں، میں رہتے ہوئے بچے کو ترکھان، لوہار، مستری، مزدور، ویلڈر بنا دیا جیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
لوگوں کی توقعات کے مطابق چلنے کا یہی معنی ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اہم ہیں۔ ہمیں اپنی رائے، اپنی پسند، اپنا فیلڈ، لوگوں کی توقعات پر قائم کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین میں اعتماد نہیں ہے۔ دوسروں کی خواہشات کے مطابق خود کو ڈھالنا بے ایمانی اور منافقت ہوتی ہے۔ خود سے زیادہ کوئی بھی انسان اچھا بُرا نہیں پرکھ سکتا۔ میں خیالات کو کالے حروف کی شکل دیتا ہوں تو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کو اچھا لگے یا بُرا۔ اگر دوسروں کی پسند و ناپسند دیکھتے ہوئے قلم کے گھوڑے دوڑائے جائیں تو یہ روح کی تاثیر سے خالی ہوں گے، اسے بکاؤ قلم کہیں گے۔ میں تو صرف اس بات کا قائل ہوں کہ بقول شاعر:
ایک دل میں بھی مِری یاد اگرز ندہ ہے
کیا ضروری ہے کہ چرچا رہے گھر گھر اپنا
المختصر، والدین کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کو خیالی پلاؤں میں نہیں بلکہ جاری معروضی حالات کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن بہتر ہے یا ڈگریوں کی پنڈ۔