Talba Mein Khudkushi Ki Barhti Sharah
طلباء میں خودکشی کی بڑھتی شرح
چند روز قبل لاہور کے سرحدی گاؤں پڈانہ کے ایک پندرہ سالہ طالب علم نے میٹرک میں نمبر کم آنے پر پانی کی ٹینکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ ایسی درجنوں خبریں ماضی قریب میں بھی آتی رہی ہیں۔ طلباء میں خودکشیوں کی ایک کثیر تعداد میڈیکل کے طلباء کی ہے جوامتحانات میں نمبر کم آنے، فیل ہونے یا کمپارٹمنٹ آنے کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے اور اپنی زندگیوں کا اپنے ہی ہاتھوں خاتمہ کرلیا۔ مگر مملکتِ خدادا میں کسی بھی فریق کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ مستقبل کے معماروں کے خودکشیوں کے منفی رحجان کی حوصلہ شکنی کریں اور ان کے سدباب کے لیے عملی ٹھوس اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کریں۔
بے حسی کی انتہا کا عالم ہے کہ طلباء میں خودکشیوں کے بڑھتے رحجان جو ایک وباء کی صورت اختیار کیے جا رہا ہے، پر نہ محکمہ تعلیم نے کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی کوئی پالیسی مرتب کی۔ نہ حکومتی سطح پر ان خودکشیوں کو بروئے غور لانے کے قابل سمجھا گیا، نہ کوئی مہم چلائی اور نہ ہی والدین اور اساتذہ کے کان پر کوئی جوں رینگی اور نہ ہی کسی مولوی نے بچوں میں خودکشیوں کی روک تھام کے لیے جمعہ کے خطبہ میں اس افسوسناک رحجان کو روکنے کے لیے کوئی تقریر کی۔ کریں بھی کیسے کہ اس موضوع میں نہ حوروں کا کوئی ذکر آتا ہے نہ جہاد کا اور نہ ہی سر تن سے جدا کا۔
ایک مریض نے ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ فکر کرنے سے انسان دمے کا شکار ہو جاتا ہے؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ فکر کرنے سے کوئی خاص بیماری لگ جاتی ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ کون سی بیماری ہے جو غم و فکر کی پیداوار نہ ہو؟
اس پندرہ سالہ بچے کو کون سا غم تھا جس نے اُسے خودکشی پر مجبور کیا؟ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے بچے کو زندگی ہار جانے پر مجبور کیا؟ وہ کون سی سوچ تھی جس کو بچہ ڈیل نہ کر سکا؟ وہ کونسے حالات تھے جسے تصور میں لا کر بچہ نفسیاتی و ذہنی دباؤ کا شکار ہوا؟ وہ کونسے خارجی حالات تھے جن کا وزن بچہ نہ اٹھا سکا اور داخلی کشمکش، ڈپریشن اور فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر اپنی جان دے بیٹھا؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جو مسئلہ کی تہہ تک لے جائیں گے۔ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈے بغیر طلباء میں خودکشی کی طرف مائل ہونے کو نہیں روکا جا سکتا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ پاکستان میں والدین اور اساتذہ دونوں بچوں کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو ایک الگ ہستی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ بچوں کو اپنے سانچے پر ڈھالنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ والدین اپنی کمزوریاں، خامیاں، ناکامیاں، نااہلیوں کی تلافی اپنے بچوں سے چاہتے ہیں۔ بار بار کی روک ٹوک، تنبیہ، پند و نصائح اورڈانٹ ڈپٹ سے بچے خود کو والدین اور اساتذہ کا محتاج سمجھنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً بچے اپنی خود اعتمادی اور انا کو کھو بیٹھتے ہیں اور شخصیت میں توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ بچے جو ابھی پھول بن کر کھلے بھی نہیں ہوتے، اُن میں نامحسوس طریقے سے نفسیاتی ٹارچر سرایت کر جاتا ہے اور جب ہرطرف سے دباؤ آنا جاری رہے مگر مناسب کونسلنگ دینے والا کوئی نہ ہو تو یہ دباؤ پریشر کُکرکے ڈھکن کی طرح پھٹ جاتا ہے۔ معروف لبنانی فلاسفر خلیل جبران نے اپنی طویل نظم "النبی" میں ایسے ہی والدین کو تنبیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
تمہارے بچے ہرگز تمہارے نہیں ہیں
وہ تو زندگی کے سپوت ہیں
تم انہیں وجود میں لانے کا وسیلہ ہو
لیکن وہ تم میں سے نہیں
وہ تمہارے ساتھ رہتے ہوئے بھی
تمہاری ملکیت نہیں ہیں
غور فرمائیں، مارک ٹوین، ھینری فورڈ، ولیم شیکسپئر، ونسٹن چرچل، ابراہم لنکن، البرٹ آئن سٹائن، عبدالستار ایدھی، کالمنسٹ عبدالقادر حسن وغیرہ جیسے درجنوں لوگ ہیں جنہوں نے بغیر رسمی تعلیم یا معمولی رسمی تعلیم حاصل کی مگر اپنا نام تاریخ میں چھوڑ گئے۔ اگر کہا جائے تو زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ ایسے ہی لوگوں نے دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ دوسری طرف دھوتیاں کُرتے پہننے والے، مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے، لینڈ مافیا اور مزدورں کے ازلی دشمن سرمایہ دار اسمبلیوں میں پہنچ کر پڑھے لکھوں پر حکم چلاتے ہیں، انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر حافظ ولید ملک نے ایم بی بی ایس تعلیم میں اُنتیس گولڈ میڈل حاصل کیے لیکن یہاں پاکستان میں اسے کسی ھسپتال میں ملازمت نہیں مل سکی۔ اسی طرح انجینئرنگ کرنے والے کئی نوجوان نان چنے بیچ کر، سبزی کی دکان چلا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تو ان حالات میں ننھے مُنھے بچوں پر جن کی عمر ابھی کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، اُن کو زیادہ مارکس لینے پر اُکسانا یا ان سے اے پلس گریڈ کی امید رکھنا کہاں کی علقمندی ہے؟ اگر یہ عقلمندی ہے تو پھر بونگا پن کی اصطلاح کا وجود ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ایسی عقلمندی سے تو بونگا پن بھی شرما جائے جیسے خلیل جبران کے افسانہ "شیطان" میں شیطان بھی انسان سے شرما گیا تھا کہ یہ بظاہر تو اشرف المخلوقات ہے مگر یہ اس شیطان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا ہے۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں آسانی سے نظر آئے گا کہ وہ لوگ جو معمولی پڑھے لکھے تھے آج وہ ڈگریوں کی پنڈیں لیے ہوؤں سے کئی گنا بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ انہیں فکر ہے نہ فاقہ، نہ سوچیں نہ خیالات، نہ وہم نہ وسوسے، نہ لوگوں کا خوف نہ رشتے داروں سے شرمندگی کا ڈر۔ ایسے ہی صورتحال بارے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا:
اپنا دیوانہ مجھے بنایا ہوتا تُو نے
کیوں خرد مند بنایا، نہ بنایا ہوتا
معز ز قارئین! اب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہو گئے ہیں کہ ذہانت کا مطلب ہرگز اے پلس گریڈ لینا یا زیادہ مارکس لینا نہیں ہوتا۔ بلکہ ذہانت کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور ہو۔ نیز ذہانت کا درسی کتابوں سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ اگر ہم ذرا گہرائی میں جا کر چند لمحات کے لیے استغراق کریں تو درسی کتابیں ذہانت کی دشمن نظر آئیں گی کہ یہ اپنی بات پتھر پر لکیر کی مانند منواتی ہیں۔ اگر بچہ نہیں مانے گا تو اسے فیل کر دیا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے سکول میں آٹھویں جماعت کے دسمبر ٹیسٹ میں معاشرتی علوم میں درآمدات و برآمدات کا سوال آیا تو میں نے جواب میں لکھا کہ لائلپور کا کپڑا عوام کو سستا نہیں ملتا۔ یہ کپڑا دبئی بھیجا جاتا ہے جہاں پر میڈ ان دبئی کی مہر لگ کو واپس لائلپور آجاتا ہے۔ صنعتکار اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے مہر لگوانے دبئی بھیجتے ہیں۔ دبئی کی مہر لگنے سے یہی کپڑا دوگنا قیمت پر فروخت کرکے ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔۔ تو مجھے صفر نمبر دیا گیا جسے میں نے خوشی سے قبول کیا بوجہ شاعر:
سچ کہہ کے کسی دور میں پچھتائے نہیں ہم
کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم
قصہ کوتاہ، تمام ذمہ داروں کو طلباء کی بڑھتی خودکشیوں بارے فوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سب سے بڑی ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو حقیقت پسند بنائیں۔ انہیں باور کروائیں کہ حادثات، فیل پاس، کمپارٹمنٹ، لڑائی جھگڑے، غریبی امیری، صحت بیماری، زندگی موت، وبائی امراض، سیلاب، بیماریاں، چوٹیں، ناکامی کامیابی، بڑھاپا لاغریت۔۔ یہ سب زندگی کا ایک حصہ ہیں اور یہ آخری سانس تک ساتھ ساتھ چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ ان بارے سوچنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
زندگی کا مقصد مزید زندگی ہوتا ہے۔ بچوں کو روزانہ بنیادوں پر گائیڈنس مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔ بچوں سے توقعات صرف بچوں جیسی رکھی جائیں۔ دوسرے بچوں سے موازنہ کرکے اپنے بچوں کی قابلیت و ذہانت جانچنے والے پیمانے کو توڑ دیا جائے۔ بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنا، ان سے کھیلنا اور ان سے نکلنے کے طریقے سکھائے جائیں اور خصوصاً بچوں کی ذہن سازی کچھ یوں کی جائے بقول شاعر:
جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور کے جانا چاہیے