Qaumi Hukumat Waqt Ki Zaroorat
قومی حکومت وقت کی ضرورت
پولنگ اسٹیشنز پر صبح سویرے ہی ووٹ ڈالنے والوں کا رش، رات دس بجے کے بعد میڈیا کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج نشر کرنے کا سلسلہ اچانک پراسرار طریقے سے رُک جانا، تیز ترین ذرائع رسل و رسائل کے باوجود انتخابات کے مکمل نتائج میں ڈھائی دن لگ جانا، ابتدائی نتائج میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا دھڑا دھڑ آگے نکلنا جب کہ آدھی رات کے بعد یکدم بریک لگ جانا، ایم کیو ایم کا پل بھر میں لمبی چھلانگ مار کر "کے ٹو" پر چڑھ جانا، یہ سب واضح کرنے کو کافی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
قطع تعلق انتخابی نتائج میں جھرلو پھرا ہے یا "فرشتوں" نے اپنی یا ملک کی بہتری اور یا پھر مبینہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے انتخابی نتائج میں ردوبدل کرکے سب پارٹیوں کی جھولی میں تھوڑا تھوڑا ڈال دیا ہے، ایک بات تو پانی کی طرح شفاف ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدواران اب تک کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی ترانوے جبکہ پنجاب اسمبلی کی ایک سو اڑتیس سیٹیں جیت چکے ہیں۔ حقیقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنا تمام تر تعصب، غصہ، نفرت، رنجشیں، ذاتی پسند و ناپسند اور جانبداری کو درگور کرکے زمینی حقائق کو قبول کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مینڈیٹ خصوصاً خیرپختونخواہ اور پنجاب کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے قبول کریں اور حکومت سازی کے لیے بال کو آزاد امیدواروں کی کورٹ میں بھی ریڑھیں اور یہی سیاسی شعور و بالغیت کا تقاضا ہے۔
انتخابات کے مجموعی نتائج کچھ ایسے نکلے ہیں کہ جیسے سب سیاسی پارٹیاں علاقائی سطح تک معروف ہیں، کوئی بھی پارٹی وفاق کی ترجمانی نہیں کرسکتی۔ نتیجتاً وفاق میں حکومت سازی کے لیے ہر پارٹی کو کسی دوسری پارٹی کا سہارا درکار ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے۔ ن لیگ ایم کیو ایم سے پینگیں بڑھا کر وفاق میں حکومت بنانے کی دوڑ میں ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ یہ دونوں فطرتی اور نظریاتی اعتبار سے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں"دو جسم مگر اک جان ہیں ہم، اک دل کے دو ارمان ہیں ہم" ہیں، ان دونوں کی تخلیق کا مقصد بھی مشترک تھا اورویسے بھی سیانوں نے کہا ہے کہ ہان نوں ہان پیارا ہُندا اے۔
صوبہ سندھ تک محدود رہ جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے ضیاء الحق کے دور آمریت کے بعد کبھی بھی اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف فرنٹ لائن پر نہیں کھیلا، ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم اٹھایا ہے۔ جبکہ ماضی قریب کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایم کیو ایم اور ن لیگ دونوں نے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا، کریز سے باہر نکل کر ھٹیں لگائیں اور ایمپائر کو اشتعال دلایا۔ لیکن پھر بھی ایمپائر نے ہاتھ ہولا رکھا۔ لیکن تحریک انصاف نے جب فرنٹ لائن پر آ کر مرو یا مارو سمجھ کر کھیلا تو صرف گراؤنڈ ایمپائر ہی نہیں بلکہ تھرڈ ایمپائر بھی تپ گئے اور ایسا تپے کہ ٹھنڈے ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے جس طرح ایم کیو ایم اور ن لیگ کی باری پر ان کا بخار اُتر گیا تھا۔ گویا ہر سیاسی پارٹی ملک کی سیاہ و سفید کی مالک اسٹیبلیشمنٹ کی ڈَسی ہوئی ہے اور بدقسمتی سے کوئی بھی پارٹی اس کی آشیر باد کے بغیر اپنا وجود برقرار بھی نہیں رکھ سکتی اور عوام کی یہی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے۔
ذہانت، متانت، سنجیدگی، شعور، مدبرانہ پن، تجربہ، تحمل مزاجی، برداشت، وسیع القلبی، بالغ نظری، صلح جو، منطق پسند، انسان دوست، استقامت اور جاذب نظر پرسنیلیٹی ایک عوامی لیڈر کی بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں اور ایسے ہی لیڈرز کو ملک کی نمائندگی کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔ غیرجانبدارانہ نظروں سے جائزہ لیں تو موجودہ سیاسی لیڈران میں یہ خصوصیات اولاََ آصف علی زرداری، ثانیاً نواز شریف اور تلاثاً شہباز شریف میں دیکھنے میں ملتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پریس کانفرنسوں، قوم سے خطابوں اور لائیو نشریات میں سینئر سیاستدانوں کی نقلیں اتارنا، عملاً کام کی بجائے محض ڈینگیں مارنا، دوران خطاب ایموشنلی ڈسٹربڈ باڈی موومنٹس، تروپے لگے کپڑے جوتے پہننا، آئینی امور میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا، قرض لیکر معاہدے سے مُکر جانا، عوام کا ہمدرد و خیر خواہ بننے کا ڈرامہ رچانے کے لیے زمینی حقائق کو جانتے بوجھتے لات مار کر پٹرول کی قیمتیں منجمند کر دینا، ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی بجائے مزید دوریاں بڑھانا، سپورٹس مین شپ کی ناپیدگی، الغرض کھسکی ہوئی کھوپڑی والے کے ہاتھ میں حکومتی باگ ڈور دینا ملک اور چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی حکومت کے قیام کے لیے تینوں پیپلز پارٹی، ن لیگ اور آزاد امیدواروں کو مل کر ایک پیچ پر آنا چاہیے۔ آزاد امیدواروں کو اس بات پر قائل کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ "مائنس ون فارمولا " کو قبول کرکے حکومت کا حصہ بن جائیں۔ مائنس وَن فارمولا ملک کی ترقی، خوشحالی، اندرونی و بیرونی محاذوں پر کامیابی اور معتدل قسم کی خارجہ پالیسی یقینی بنائے گا۔ داخلی سطح پر قومی حکومت کے قیام سے "ڈائن" جس نے باری باری سب کو ڈسا ہے اور جس کے منہ کو لہو لگ چکا ہے، اس پر چاروں طر ف سے دباؤ ڈالنے کا سنہری موقع ملے گا۔ بیشک ڈائن کے ہاتھ اور دانت بہت لمبے سہی، قومی حکومت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، لیکن کم از کم اس کا قیام سائیکالوجیکل اٹیک کا کام تو ضرور دے گا جو کہ حقیقی جمہوریت کی جانب بارش کا پہلا قطرہ ہوگا۔
جو کر دیتی ہے ساری عمر کی تاریخ کو روشن
حیاتِ مختصر میں ایک گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے