Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Najeeb ur Rehman/
  4. Pakistan Post, Nijkari Aur Awaam

Pakistan Post, Nijkari Aur Awaam

پاکستان پوسٹ، نجکاری اور عوام

نگران وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد صدارتی آرڈینینس کے ذریعے پاکستان پوسٹ اور تین مزید اداروں ریڈیو پاکستان، این ایچ اے اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی سروسز کی حکومتی سرپرستی ختم کر دی گئی ہے اور یہ ادارے خود مختار انتظامی بورڈ کے تحت کام کریں گے۔ پرائیوٹائزیشن کا یہ عمل عالمی مالیتی ادارے (آئی ایم ایف) کے کہنے پر اور ستر کروڑ ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لیے بروئے عمل لایا گیا۔ نگران حکومت پرائیوٹائیزیشن کے اس عمل کا دفاع یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ تمام ادارے خسارے میں تھے جس کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپیہ نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں کو خسارے میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ان اداروں کو رواں رکھنے والے غریب ملازمین کا خسارے میں کیا اور کیسے ہاتھ ہے؟ حکومت نے اس خسارے کو دُور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ لاکھوں روپے تنخواہیں بٹورنے والے بیوروکریٹس خسارے پر قابو پانے میں کیونکر ناکام ہوئے؟

ان اداروں کی باگ ڈور بیوروکریٹس کے پاس تھی اور وہی ان کو ہانکنے کے کام کی بھاری تنخواہیں لیتے ہیں، یہی افسر شاہی پالیسیاں مرتب کرتی ہے، مارکیٹس میں گاہک ڈھونڈتی ہے، چیک اینڈ بیلنس کا کنٹرول رکھتی ہے، آمدنی اور اخراجات کے ضمن میں آئے روز اعداد و شمار اکٹھے کرتی رہتی ہے، بریکوں فیل میٹنگیں کرتی ہے، خود ہفتہ میں دو چھٹیاں مارتی ہے جبکہ نچلے درجے کے غریب ملازموں سے پورا ہفتہ یہاں تک کہ کبھی کبھار عید کے دنوں، اتوار کے روز اور کرونا وبا کے دوران بھی کولہو کے بیل کی طرح کام لیتی ہے۔

جب سب انتظامی و بندوبستی اختیارات ہی بیوروکریٹس کے پاس ہیں تو لازمی طور پر اسی "سفید ہاتھی" کو کسی بھی سرکاری محکمہ کو خسارے میں پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاھئیے اور انہی سے باز پرس کی جانی چاہیے نہ کہ اداروں کو پرائیوٹائز کرکے غریب ملازموں کے روزگار کو داؤ پر لگانا چاہیے اور نہ ہی بھوکی ننگی اور مفلس عوام سے سستی سروسز چھیننی چاہئیں۔

پاکستان پوسٹ کے ملک بھر میں پندرہ ہزار سے زائد ڈاک خانے اور جی پی او ہیں اور لگ بھگ چالیس ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ یہ واحد وفاقی سرکاری ادارہ ہے جس کا ڈاکیا موسم کی گرمی سردی، بیماری، وبا اور اُجاڑ علاقوں کی پرواہ کیے بغیر ہر جگہ پہنچ کر عوام کو ان کی امانتیں کبھی خطوط کی شکل میں، کبھی منی آرڈر کی شکل میں اور کبھی وی پی پارسلز کی شکل میں باحفاظت پہنچاتا ہے۔ گویا جہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا وہاں پاکستان پوسٹ پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان بھر میں جگہ جگہ قائم ڈاک خانوں سے لوگ غیرشعوری طور پر اُنس رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوسٹ آفس آج "پاکستانی ثقافت" کا ایک حصہ بن چکا ہے، اسکے ذکرکے بغیر پاکستانی ثقافت ادھوری ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈ پر پاکستان پوسٹ سے ملٹری پنشن کی ادائیگی، پی ٹی سی ایل پنشن کی ادائیگی، سیونگ بینک اکاؤنٹس، سیونگ سرٹیفیکیٹس وغیرہ کی سروسز کو بند کرکے پنشن کو بینکوں کے سپرد اور سیونگ اکاؤنٹس کو قومی بچت کے مراکز میں بھیج دیا گیا۔ عوام کی دہلیز سے پاکستان پوسٹ کی سہولت چھین کر انہیں دور دراز علاقوں میں اپنی پنشن اور بچت کے حصول کے لیے خجل خراب کرنا شروع کر دیا گیا۔

پاکستان کی تاریخی اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لیکر ہم دیکھیں تو اداروں کی نجکاری سے صرف غریب طبقہ ہی متاثر ہوتا ہے اور برسرِ روزگاروں کو بیرروزگار کیا جاتا ہے۔ بھٹو دور میں پاکستان میں مالیاتی اور صنعتی اداروں کے ساتھ ساتھ بہت سے ھسپتال اور سکول قومی تحویل میں لیے گئے۔ نتیجتاً عوام کو ریلیف ملا، ھسپتالوں میں علاج حکومتی سرپرستی میں ہونے کی وجہ سے مفت ہونے لگا۔ اعلیٰ سکولوں میں غریبوں کے بچے داخل ہونا شروع ہوئے۔ بعد ازاں، ضیاء الحق نے بھٹو کی قومیانے کی پالیسیوں کو ختم کرتے ہوئے قومی اداروں اور صنعتوں کی پرائیوٹائزیشن شروع کر دی تاکہ سرمایہ داروں کا اعتماد حاصل کرکے اپنے مارشل لاء کو "جمہوری سپورٹ" دے سکے۔ نجکاری کا یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ آج تک جاری و ساری ہے۔

سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا معنی یہی ہوتا ہے کہ اس خوبصورتی سے کوئی دی گئی ٹاسک مکمل کی جائے کہ حرف تک نہ آئے۔ اسی مانند محکمہ ڈاک کو حکومتی سرپرستی "مترئی ماں" جیسی ملی۔ پاکستان پوسٹ کو خسارے سے نکالنے کے لیے حکومت نے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی، ٹی وی پر درجنوں چینلز میں سے کسی ایک پر بھی پاکستان پوسٹ کا کوئی چند منٹ کا اشتہار تک دیکھنے کو نہیں ملا جس سے عوام پاکستان پوسٹ کی طرف سے دی جانے والی سہولتوں بارے مستفید ہو سکتے۔ کبھی اخبارات میں کوئی اشتہار نہیں چھاپا گیا۔ سوشل میڈیا پر اسکی تشہیر تک نہیں کی جاتی۔ چوراہوں، سڑکوں پر کبھی پاکستان پوسٹ کا کوئی بینر نظر نہیں آیا۔

پاکستان پوسٹ کے اندرون اور بیرون ملک ڈاک بھیجنے کے نرخ اسی طرح آج بھی وہیں کے وہیں ہیں جسطرح ملازموں کا کنوینئس الاؤنس ڈیڑھ دھائی سے وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے جبکہ پٹرول کی قیمتیں آسمان پر چڑھ چکی ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز کی مَد میں جو کمیشن محکمہ ڈاک وصول کر رہا ہے اس سے تو یوٹیلیٹی بلز کی وصولی پر معمور سٹاف کی تنخواہ بھی پوری نہیں ہوتی۔ کمیشن کو بڑھانے کے لیے بیوروکریٹس نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی محض اس خوف سے کہ جو مل رہا ہے کہیں وہ بھی نہ ہاتھ سے جاتا رہے۔ مصنوعات کی ترسیل میں اضافے کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گویا پاکستان پوسٹ کو نجکاری کی طرف دھکیلنے کا یہی "روڈ میپ" تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان پوسٹ کی نجکاری دراصل پرائیویٹ کورئیر کمپنیوں کو نوازنے کے لیے ہے۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی تاکہ خسارے کا ڈرامہ رچا کر نجکاری کی راہ ہموار کی جائے۔ آج کے دَور میں آن لائن کاروبار عروج پر ہے۔ کتابیں، سٹیشنری، ادویات، کپڑے، ریڈی میڈ سوٹ، کھلونے، گفٹ، کمبل بسترے، برتن الغرض ہر چیز آن لائن دستیاب ہے۔ آن لائن بزنس کی وجہ سے پاکستان پوسٹ چونکہ اپنے پرکشش نرخوں کی وجہ سے کاروباری طبقے کی توجہ کھینچ رہا ہے اور پہلے کی نسبت زیادہ پارسلز کی بُکنگ ہو رہی ہے، ریونیو میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجتاً پرائیویٹ کورئیر کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان کو یہ سب ہضم نہیں ہو رہا۔ پاکستان پوسٹ کی نجکاری سے کروڑوں عوام متاثر ہوں گے، ملازمین کی چھانٹیاں کی جائیں گی، ڈاک کے نرخ عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے، بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔

قرض اتارو ملک سنوارو، ڈیم فنڈ، کفایت شعاری مہم، دو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنا کی ڈینگیں، سیلاب زدگان فنڈ، زلزلہ زدگان فنڈ، موٹر ویز گروی، ائیرپورٹس گروی، سالوں سے یہ سلسلہ لگا آ رہا ہے لیکن نہ ہی قرضہ اترا، نہ ڈیم بنا، نہ آئی ایم ایف کا منہ بند ہوا، نہ زلزلہ و سیلاب زدگان کی بحالی ہوئی۔ آخر یہ سار ا سرمایہ کدھر جاتا ہے، زمین کھا جاتی ہے یا آسمان نگل لیتا ہے۔ محکمہ ڈاک اور دیگر تین محکموں کی اونے پونے نجکاری سے حکومت کو وصول ہونے والی آمدنی کا بھی یہی حال ہوگا کیونکہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور ویسے بھی معروف ہے کہ چور چوری سے جائے، ھیرا پھیری سے نہ۔

Check Also

Kuch Nayab Heeray

By Haris Masood