Noon League Ki Siasi Nabalghiat
ن لیگ کی سیاسی نابالغیت
پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں ہر کوئی صرف اپنے فائدے، اپنے مفاد کے لحاظ سے کسی کو اچھا یا بُرا سمجھنے کا تعین کر رہا ہے اور خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا۔ یہاں تک کہ مینڈیٹ دینے والی عوام کے سامنے بھی کوئی سیاستدان جوابدہ نہیں ہوتا۔ یہاں پر جس کا داؤ لگتا ہے وہ لگائی جا رہا ہے۔ کوئی بھی سیاستدان، پارٹی انفرادی و ذاتی نفع پر عوام کے روٹی، کپڑا اور مکان کے حق کو ترجیح نہیں دے رہی۔ یہاں کا عدالتی نظام بھی یہاں کے مولوی کی طرح اشرافیہ کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ میڈیا کے بعد عدالتی سسٹم حکومتیں بنانے اوراکھاڑنے میں اتنا مصروف ہے کہ عام آدمی کس حال میں زندہ ہے، ان کو نہ کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کوئی اندازہ۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹنے کے دھڑا دھڑ مختلف حربے استعمال کر رہی ہیں کہ ایک نہ سہی، دوسرا ہی کامیاب ہو جائے گا۔
جب بلا کا نشان چھیننے کا عمل کامیاب نہ ہوا تو پریس کانفرنسیں شروع کی گئیں۔ جب یہ بھی مکمل کامیاب نہ ہوئیں تو پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جب یہ بھی زود اثر نہ ہوئی تو مخصوص سیٹوں پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی گئی اور ساتھ ہی آرٹیکل چھ کی دھمکی بھی لگا دی گئی۔ کرسی کی اتنی فکر کہ جلد بازی میں ن لیگ نے عطا تارڑ کے ذریعے وہ پریس کانفرنس کر ڈالی کہ جس سے لمحوں ہی میں ن لیگ سیاسی دھوبی پٹکا کھا بیٹھی۔ بندہ پوچھے کہ اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ اتحادیوں سے اتحاد صرف کرسی تک پہنچنے کے لیے سیڑھی بنانے تک کے لیے تھا؟ اتحادی پارٹیوں سے مشورہ کرنے میں کیا حرج تھا؟ پاکستان پیپلز پارٹی کی خالص سیاسی حسیات سے فائدہ اٹھانے سے کونسی ایگو روک رہی تھی؟
پی ٹی آئی کی لیڈر شپ پر آرٹیکل چھ لگانے کی سوچ اس بات کا ثبوت ہے کہ ن لیگ کو نیازی سے بھی زیادہ کرسی عزیز ہے۔ یہ بجا کہ سن بیس سو تئیس میں قاسم سوری نے غیر آئینی رولنگ دیکرآئینی تحریک عدم اعتماد کو سبو تاژ کیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے عمل میں پی ٹی آئی نے عوامی ہمددردیاں سمیٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے عہد و پیمان کو اپنی کرسی کے لیے توڑ دیا اور پٹرول کی قیمتیں جون سن تئیس تک منجمد کر دیں۔ بعد ازاں جب عدم اعتماد تحریک کامیاب ہوگئی اور عمران خان کو وزیر اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا تو انہوں نے نواز شریف ہی کی طرح " مجھے کیوں نکالا" کا راگ الاپنا شروع کیا اور جنرل باجوہ کو براہ راست نشانے پر رکھ لیا کہ جس کی تاریخ میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ غالباً یہی وہ محرکات تھے جس کی وجہ سے حالات نو مئی کے حملوں تک پہنچ گئے۔
دوسری طرف یہ نہ ماننا بھی دن دھاڑے ڈنڈی مارنا ہوگا کہ مئی بیس سو اٹھارہ میں ملتان میں نواز شریف نے سرل المیڈا کو ایک متنازع انٹرویو دیاتھا، جس میں انہوں نے اسٹیبلیشمنٹ پراس قدر سخت الفاظ میں تنقید کی تھی کہ جیسے دن میں تارے نظر آنا محاورہ یہیں سے اخذ ہوا ہو۔ اس انٹرویو کے نتیجے میں پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات راتوں رات اس قدر ڈگمگا گئے تھے کہ دونوں طرف سرحدی علاقوں میں بوٹوں کی دھمک صاف سنائی دینے لگی تھی۔ پاکستان ایک اور ' نائن الیون' کا خمیازہ بھگتنے سے بال بال بچا، عالمی تنہائی شہ رگ کو چھو کر گزر گئی تھی۔
اس حمام میں تو سب ننگے ہیں۔ ن لیگ کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ کس کس پر آرٹیکل چھ لگے گا اگر یہ سلسلہ چل نکلا؟ آرٹیکل چھ کا شوشہ چھوڑنے سے قبل ن لیگ کی یہ سیاسی بالغیت ہوتی اگر صدر آصف علی زرداری کی گہری سیاست سے استفادہ کر تے ہوئے ان سے مشورہ کا کہتی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی خود بھی ن لیگ سے مایوس ہو چکی ہے اور اسی لیے حالیہ دنوں میں لاہورمیں صدر آصف علی زرداری نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ن لیگ سے حکومت نہیں چل رہی، ہم حکومتیں بنانا اور گرانا جانتے ہیں، پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا کوئی کام نہیں کیا جا رہا۔ اس سے تاثر ابھرتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی راہیں جدا کرنے بارے غور فرما رہی ہے۔
ن لیگ کا عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانااور پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ صادر کرنا ایک غیر سیاسی سوچ کا مظہر ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بشمول اس کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی اور ھیومن رائیٹس اس فیصلے کی مذمت کر چکے ہیں۔ راقم نے تو سنا تھا کہ انسان اپنے ماحول سے براہ راست متاثر ہوتا ہے، اچھی صحبت اچھا اور بری صحبت برائی پیدا کرتی ہے۔ لیکن مری اعلامیہ سے ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ ن لیگ کی سرشت کبھی نہیں بدل سکتی، اور سب اچھی طرح ان کی سرشت سے واقف ہیں۔ تعجب ہے کہ اتنے سال سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس میں سیاسی ذہن پیدا نہیں ہو سکا۔
یہ ایک انمٹ حقیقت ہے کہ عوام مہنگائی سے جس قدر چھلنی ہیں، بجلی اور گیس کے بلوں سے ڈپریشن میں مبتلا ہیں، یہ عوام خود چاہتے ہیں کہ ن لیگ سے جان چھوٹے۔ آئی ایم ایف کے قرضہ کے لیے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں پھینک دیا گیا ہے۔ آج ہی میں ٹماٹر لینے گیا تو پتہ چلا دو سو چالیس روپے کلو۔ یہ سنتے ہی میں خالی ہاتھ واپس آیا اور ٹماٹر مکس ہونے والی ہانڈی کی بجائے دوسری ہانڈی گھر میں پکوائی جس میں ٹماٹر کی ضرورت نہ ہو۔ ن لیگ فائلر اور نان فائلر کا رولا ڈال کر ہانڈی میں بہت سے مصالحے پا کر گوشت کو حلال کرنے کی کوشش کرر ہی ہے۔ ایک طرف کفایت شعاری، پانچ محکمے بند کیے جا رہے ہیں، ڈاؤن سائزنگ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ شروع کر دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف روزانہ ہر اخبار میں آدھے اور کبھی پورے صفحات پر حکومتی " کارناموں" کے کروڑوں روپے کے اشتہارات دیئے جا رہے ہیں۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
پیپلز پارٹی نے اپنی پیشہ وارانہ سیانت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے متعدد بار کہا ہے کہ حکومت کو عمرا ن خان کی فکر چھوڑ کر عوام کو ریلیف دینے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہماری دانست میں اگر مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کو جاتی ہیں تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔ مخصوص نشستوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ کر ن لیگ نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے جس کامنفی اثر تادیر رہے گا۔ بہتر ہوتا کہ ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ پینگیں ڈالی رکھتی اور انہیں مزید اونچائی تک لے جاتی۔ شاید محکمہ زراعت کے سائے کی وجہ سے اکیلی ہی میدان میں آ گئی ہے!
کون اس کا کما ل ہو نگہباں
جو باغ خزاں کو خود پکارے