Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Khote Sikkay Aur Inqilab

Khote Sikkay Aur Inqilab

کھوٹے سکے اور انقلاب

معاشی بدحالی، دنیا بھر میں کشکول لیکر گھومنا، شدید مہنگائی، مہنگی بجلی، گیس، پٹرول، غذائی کمی کے شکار بچے، آسمان سے چھوتی ادویات کی قیمتیں، شرح خرید میں کمی، بد ترین بیروزگاری، کرپشن، غبن، چوری، ڈاکے، لوٹ مار، چھینا جھپٹی، کھومائی، بھوک سے بلبلاتی عوام۔ لیکن نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی دھرنا، اور نہ ہی کوئی اکٹھ دیکھنے میں آیا۔ حالانکہ عمومی طور پر یہی وہ حالات ہوتے ہیں جو انقلاب کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ تو پھر انقلاب آ کیوں نہیں رہا؟ کیا عوام کمزور ہیں جو ریاستی ٹارچر کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے؟

قائد اعظم بھی پاکستان قائم کرکے انقلاب لانا چاہتے تھے جہاں سب مسلمان آزادی کے ساتھ رہ سکتے اور اقلیتوں کے لیے جان مال کی فکر قصہ پارئینہ ہو جاتی۔ جس طرح ہمارے سیاستدان ووٹ لینے کے لیے مختلف نعرے مارتے ہیں جیسے عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کا نعرہ مارا، پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مارا، ن لیگ نے مجھے کیوں نکالا کا نعرہ مارا، اسی طرح پاکستان کے قیام کی جلد راہ ہموار کرنے کے لیے جناح نے دو قومی نظریہ بطور ایک سیاسی نعرہ کے استعمال کیا تھا۔ حالانکہ جناح خود سیکولر تھے اور ہر مذہب کی آزادی کے خواہشمند تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھانپ لیا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا اور اسی وجہ سے بد دل ہو کر کہا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے گئے ہیں۔ ملک میں مارشل لاء کا طویل دور اور اسلامائزیشن اس بات کو ثابت کرنے کو کافی ہے۔ گویا 'منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے'۔

مطلب پرستوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے تاریخ کو الٹا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ اسی ضمن میں جناح کو پینٹ کوٹ کی جگہ شیروانی پہنا دی گئی اورمولوی بنا کر پیش کیا گیا۔ سرکاری دفاتر میں جا کر دیکھیں تو شیروانی میں زیب تن جناح نظر آتے ہیں جبکہ انہوں نے یہ لباس پوری زندگی شاید ہی کبھی پہنا ہو۔ معزز قارئین! سوال یہ ہے کہ جس مکان کی بنیادوں میں ٹھیکیدار نے کرپشن کرنے کے لیے سیمنٹ کی جگہ گارا بھر دیا ہو، اس مکان کے، اس کے باسیوں کے پائیدار ہونے کا قیاس کیونکر کیا جا سکتا ہے؟ اس مکان سے کیسے امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ طوفانوں، بارشوں، سیلابوں، زلزلوں اور آگ برساتے سورج کا مقابلہ کر پائے گا؟ اس مکان کے باسیوں سے انقلاب برپا کرنے کی امید رکھنا ایسے ہی ہوگا جیسے سورج سے بارش کی امید رکھنا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں انقلاب کی چنگاری بھڑک رہی ہے جو کسی بھی وقت بھانبڑ کا روپ دھار کر انقلاب برپا کر دے گی۔ مبینہ انقلابی وڈیوز بھی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی ہیں۔ اس سے قبل الطاف حسین بھی اسی قسم کے دعوئے کرتے رہے تھے بس فرق صرف یہ کہ الطاف حسین شیخ مجیب کی وڈیوز کی بجائے بھارت کے گُن گاتے تھے جو لاشعوری طو ر منہ سے نکل جاتے تھے کہ جنم بھومی اور ماتا پتا کے گڑھ کو کون بھولتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک کو انقلاب سے تشبیہ دینا دیوانے کا محض ایک خواب ہوتا ہے۔ انقلاب کے نام پر کرسی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور پھر سوال یہ کہ ایسا ووٹر جو بجلی کے ہوش اڑاد ینے والے بلوں کے لیے ریاست سے نہیں ٹکرا سکتا وہ کیا انقلاب لائے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ کھوٹے سکوں نے پون صدی سے متواتر بیشمار سرمایہ لگایا، ریاستی ادارے بنائے، مناظرے کروائے اور بے تحاشا لٹریچر شائع کرکے عوام کا انقلابی ذہن ایسے غائب کر دیا ہوا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عوام کو فرقہ واریت، بھارت دشمنی، سر تن سے جدا، حب الوطنی، غیرت، جہاد اور سب سے پہلے پاکستان کی افیم کی گولی دی گئی ہے تاکہ عوام اپنے مسائل، اپنی بھوک ننگ، چھت، بیروزگاری، صحت، خوشحالی کی طرف غور نہ کر سکے اور اگر بھولے بسرے غور کر بھی لے تو اللہ کی رضا سمجھ کو چپ رہے۔

ہیں جال وہ ہوا میں کہ آتے نہیں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا

د ھیئے کن کر، نیہوڑیے گل سُن (کہنا بیٹی کو سُنانا بہو کو) طرز پر ہماری اسٹیبلشمنٹ یاد دہانی کے لیے وقتاً فوقتاً جو گُل کھلاتی رہتی ہے، کبھی سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بناتی ہے، کبھی ایکس بند کر دیتی ہے، کبھی بہاولنگر کی سیرکر تی ہے۔ یہ سب انقلابیوں کو اشارہ دینا ہوتا ہے کہ بندے بن جاؤ، جوشیلا خون انقلاب کے لیے بلکہ جہاد کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ خوفزہ رہتے ہیں اور ریاست سے ٹکرانے سے گھبراتے ہیں۔ ان کا خوف اور گھبڑاھٹ دور کیے بغیر انقلاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انقلابی قائد کبھی بھی لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتا اور نہ ہی لوگوں کے لیے سوچتا ہے بلکہ وہ صرف لوگوں کے ساتھ مل کر سوچتا ہے۔ جبکہ بانی پی ٹی آئی ایک سو بیس دن دھرنے میں کنٹینر کے اے سی میں رہتے لیکن عوام کو موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ فصلی بٹیروں اور لوٹوں کے ساتھ بیٹھ کر انقلاب کی باتیں کرنا روحِ انقلاب کی توہین ہے۔

انقلاب ریاست کے خلاف نہیں بلکہ کھوٹے سکوں کے خلاف وقوع پذیر ہوا تو ہی کارگر انقلاب ہوگا۔ اس کے لیے عوام میں تنقیدی شعوری بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ انقلاب کھوٹے سکوں میں سے اٹھے گا توپائیدار اور لانگ ٹرم ہوگا۔

اک نئی جہدِ مسلسل کا ہم آغاز کریں
حُسنِ تدبیر سے بن جاتی ہے بگڑی تقدیر

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani