Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Iqtidar Ka Huma Kis Ke Sar Baithe Ga

Iqtidar Ka Huma Kis Ke Sar Baithe Ga

اقتدار کا ھما کس کے سر بیٹھے گا

پاکستان میں آج جماعتی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کا عمل جاری ہے اور ووٹرز کا صبح سے ہی رش دیکھنے میں آیا ہے جو کہ جمہوری عمل کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔ ووٹرز جس جوش و خروش سے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رُخ کر رہے ہیں، اس کی مثال ماضی کے انتخابات میں کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ چند حلقوں کو چھوڑ کر تمام حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پولنگ اسٹیشنز کے باہر کیمپ چراغ لیکر ڈھونڈنے سے ہی مل سکیں گے۔ ملیں بھی کیوں کہ منجھے ہوئے اور گھاگ سیاستدان آصف علی زرداری نے خوامخواہ ہی تو نہیں کہا تھا کہ "آزاد امیدوار" پیپلز پارٹی کی جھولی میں گریں گے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ آزاد امیدوار کون ہیں۔

ان انتخابات کی شہہ سُرخی یہ ہے کہ بیوروکریسی، اداروں اور غیر جمہوری قوتوں نے پاکستان تحریک انصاف کو مقابلہ کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے انتخابات سے محض چند ہفتے قبل بڑ ی دیدہ دلیری اور پُھرتی سے دھڑا دھڑ فیصلوں کے ڈھیر لگا دیئے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ مانا کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے دَورِ اقتدار میں چوبیس کروڑ عوام کو سوائے سبز باغ دکھانے کے عملاََ کوئی کام نہ کر سکی۔ مانا کہ پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا، مانا کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی مالیاتی گماشتہ اداروں کو سیاست کے ھتیار سے ڈیل کرنے میں ناکام ہوئی اور مہنگائی کی شدید لہر کی ذمہ دار ہے، مانا کہ پی ڈی ایم کی پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کا مردانہ وار اور جمہوری طریقے سے سامنا کرنے کی بجائے تحریک انصاف نے آئین، اخلاق اور قانون کی دھجیاں اُڑا کر سیاست و جمہوریت سے نابلد ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پی ٹی آئی کو انتخابی میدان میں اترنے ہی نہ دیا جائے۔ یہ اداروں، نادیدہ ہاتھوں، اسٹیبلشمنٹ اور غیرجمہوری قوتوں کا کام نہیں کہ ایک بڑی جماعت کو غیرجمہوری طریقے سے میدان میں نہ اترنے سے باز رکھا جائے۔ بلکہ یہ کام صرف جمہور یعنی عوام کا ہے کہ وہ جس کو چاہیں اپنے ووٹ کی طاقت سے باہر کریں یا کرسی پر بٹھائیں اور یہی جمہوریت کا معنی اور حُسن ہے۔

پی ٹی آئی سے بلا کا نشان کسی بھی بہانے ضبط کر لینا، انہیں انتخابی مہم سے جلسوں سے منع کرنا اور ان کے امیدواروں کو مختلف انتخابی نشانات الاٹ کرنا درحقیقت انتخابات میں ابہام پیدا کرنا ہے، جمہوریت پر شب خون مارنا ہے، عوام الناس کی آنکھوں میں دن دھاڑے دھول جھونکنا ہے، ان کی رائے کو بدلنے پر مجبور کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جسکی کوئی بھی ذی شعور حمایت نہیں کر سکتا۔ اس پس منظر میں جاری انتخابات ایسے ہیں کہ جیسے جسم بغیر روح یا پھول بغیر خوشبو کے۔ اکیلے بھاگ کر دوڑ میں اول آ جانا تو کوئی معرکہ نہیں ہوتا اور ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ کھیل کا تب ہی مزہ آتا ہے جب جوڑ برابر کا ہو۔

محض پنجاب کی سطح تک پاکستان مسلم لیگ ن انتخابی مہم میں سرگرم رہی ہے اور اس نے تقریباََ تمام صوبائی اور قومی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ میاں صاحب کی لندن سے واپسی پر اور خصوصاً انتخابات سے چند ہفتے قبل دھڑا دھڑ تمام مقدمے قصہ پارینہ بن جانا بہت معنی خیز بات ہے اور اسی وجہ سے الیکشن یا سلیکشن کی طرف عوام کی توجہ مبذول ہونا کوئی حیران کن امر نہیں ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ ن لیگ نے اپنے دور حکومت میں پنجاب میں بیشمار ترقیاتی کام کیے، موٹروے اور سڑکوں کا جال بچھا کر شیر شاہ سوری کو بھی پیچھے چھوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انڈر پاسز کا جال بچھایا، چوراہوں، سڑکوں کو کشادہ کیا، یو ٹرن بنائے۔ لیکن اس سب کا فائدہ صنعتکار، سرمایہ دار، لینڈ مافیا اور تاجر طبقہ کو ہوا۔ ان ترقیاتی کاموں سے غربت میں پسی ہوئی عوام کو رتی بھر بھی فائدہ نہیں ہوابلکہ الُٹا نقصان ہی ہوا ہے۔ موٹر ویز جن پر ایلیٹ کلاس کی لشکارے مارتی اور سپیڈ پکڑتی گاڑیاں گزرتی ہیں جبکہ غریب بندے کی بائیک کو اس پر چڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ تیز رفتاری میں خلل پیدا ہوتا ہے۔

کسان جو پہلے ہی مہنگی کھاد کی وجہ سے پریشان ہے اور اپنی فصل کو صنعت کاروں، سرمایہ داروں، تاجروں اور پلازہ مالکان کے ٹاؤٹ کا کام کرنے والے آڑھتیوں کے ہاتھوں اونے پونے بیچنے پر مجبور و لاچار ہے، اس غریب کو ہزاروں روپیہ ٹول ٹیکس ادا کرکے موٹر ویز کے ہاتھی کا پیٹ بھر کر گزرنا پڑتا ہے۔ خوشی غمی کے موقع پر کسی دوسرے شہر جانا پڑ جائے تو موٹرویز پر بھاری ٹیکس ہونے کی وجہ سے عوام ہی کو بسوں کے مہنگے کرائے بھگتنے پڑتے ہیں۔ جب موٹر ویز ایک عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچا پاتیں تو اسے ترقی قرار دینا درست نہیں۔

تیسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو جوڑ توڑ کی سیاست میں معروف، خارجہ پالیسی میں ماہر جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رکھ رکھاؤ میں پھسڈی ہے۔ پیپلز پارٹی میں آصف زرداری ایک دھیمے، مدبر اور دُور کی کوڑی لانے والے سیاستدان ہیں۔ ان کی سیاست حال میں مستقبل کو دیکھ لینے کی قابلیت کی بدولت معروف ہے۔ پکا پکا ہاتھ ڈالنے میں موصوف مشہور ہیں۔ صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بہت کم امیدوار میدان میں ہیں۔ اسی طرح لاہور میں سوائے بلاول بھٹو زرداری کے حلقہ انتخاب سے اور کہیں گرم جوشی یہاں تک کہ پولنگ اسٹیشنز کے باہر کمیپ تک موجود نہیں ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے ووٹ بینک کا درست اندازہ ہے اور اسی وجہ سے خوامخواہ وسائل ضائع نہیں کیے گئے۔

ن لیگ، تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں کون بازی لے جائے گا، اس کا درست اتہ پتہ تو بہرحال آج رات ہی لگے گا۔ لیکن چونکہ آندھی آنے کے آثار پہلے ہی نظر آجاتے ہیں، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے اپنی انتخابی مہم اور بیانات میں تحریک انصاف کے ساتھ نرمی برتی ہے، ہاتھ ہولا رکھا ہے اور آزاد امیدواروں پر انحصار کی باتیں کی گئیں ہیں اور جس طرح ن لیگ کو نشانے پر رکھا ہے، ن لیگ اپنی سیاسی نابالغیت کی وجہ سے سیاسی شطرنج سے باہر ہو جائے گی۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی دور اندیشانہ سیاست کی بدولت آزاد امیدواروں کی کھلی حمایت سے اقتدار کے ھما کو گھیر کر اپنے سر پر بٹھا لے گی کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر آزاد امیدواروں کو سپورٹ کرے گا۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf