Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Girta Hua Taleemi Mayar

Girta Hua Taleemi Mayar

گرتا ہوا تعلیمی معیار

رواں ماہ نویں کلاس کے رزلٹ کے اعلان کے مطابق لاہور بورڈ میں کامیابی کا تناسب 44.5 فیصد، گوجرانوالہ بورڈ میں 47.38 فیصد اور ساہیوال میں کامیابی کاتناسب 40.40 فیصد رہا۔ اس رزلٹ سے عیاں ہے کہ نصف سے زائد طالب علم نویں جماعت کا امتحان پاس نہیں کر سکے اور اپنا ایک سال گنوا بیٹھے۔

یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ آج امتحانات میں اوبجیکٹو ٹائپ سوالات کی کثیر تعداد ہر پرچہ میں ہوتی ہے اور ان کے مارکس بھی پچیس سے زائد ہوتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایم سی کیو سوالات کی وجہ سے امتحانات میں کامیابی کا تناسب بڑھنا چاہیے نہ کہ گرنا۔ جبکہ ہمارے دور میں سن اسی کی دہائی میں پچانوے فیصد تک پیپرز سبجیکٹو ٹائپ ہوتے تھے اور نویں اور دسویں دونوں جماعتوں کا اکٹھا امتحان لیا جاتا تھا۔ یوں طالب علموں کو دو سال کا تعلیمی مواد مد نظر رکھ کر تیاری کرکے امتحانات دینے ہوتے تھے۔ ایم سی کیو سوالات ایک قسم کا شارٹ کٹ ہے جو پاس ہونے کی شرح میں اضافہ کرتا ہے اور غالباً محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا نے کامیابی کے تناسب میں راتوں رات اضافہ کرنے کے لیے ہی ایسے سوالات شروع کیے ہیں تاکہ گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بڑھتا ہوا دکھا کر ترقی کرتا ہوا پاکستان کاتاثر پھیلایا جاسکے۔

ہمیں سخت تشویش ہے کہ آخر نو نہالوں کی اکثریت کی قسمت میں صرف فیل ہونا ہی کیوں لکھ دیا گیا ہے؟ بچوں کے تعلیمی سال کے ضائع ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟ بچے پڑھائی کیوں نہیں کرتے کہ کم از کم پاس ہونے جتنے مارکس تو لیں؟ کیا فیل کرنے میں تعلیمی بورڈز شامل ہیں؟ کیا نصاب بچوں کی دلچسپیوں کے مطابق نہیں ہے؟ نصاب اہم ہے یا بچوں کے رحجانات اہم ہیں؟ کیا طریقِ تعلیم درست نہیں؟ کیا ذریعہ تعلیم غلط ہے؟ کیا اساتذہ کی معاشی و معاشرتی حالت دگرگوں ہے جس کی وجہ سے وہ درس و تدریس میں اتنی بھی دلچسپی نہیں لے رہے کہ بچے رعایتی پاس ہی ہو جائیں؟ کیا موبائل، ٹیبلٹ، سوشل میڈیا، گیمز وغیرہ بچوں کی ناکامی کی وجہ ہیں؟ ان سوالات پر غور و غوض کیا جائے توبچوں کی امتحانات میں ناکامی کے پس پردہ حقائق تک پہنچنے کے لیے آسانی ہوگی۔

کوئی بھی درسی کتاب اٹھا لیں، اس میں درج ابواب کا عنوان پڑھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ درسی مواد کا ہماری عملی زندگی سے معمولی سا بھی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں بچوں کی نفسیات، رحجانات اور ان کی عمر کے مطابق دلچسپیوں کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ گویا بچے وہ تعلیم سکولوں میں لیتے ہیں جو انہیں عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ نتیجتاً طالب علموں کو زندگی میں اپنے لیے جگہ بنانے کے لیے نئے سرے سے جائز و ناجائز جدوجہد کرنی پڑتی ہے کیونکہ ان کی تعلیم انہیں زندگی میں جگہ پیدا کرنے کے لیے مکمل اور درست رہنما ثابت نہیں ہوتی۔ جب نصاب ہی غیر علاقائی ہو، بچے کی روزمرہ مصروفیات اور گھریلو و محلائی زندگی سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو بچوں کے لیے ایسی تعلیم قابلِ کشش نہیں ٹھہرتی اور بچہ مجبوراً رسمی تقاضوں کی وجہ سے رٹے مار کر یا بوٹیاں لگا کر امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

تعلیمی نصاب میں حکومتی دخل اندازی بھی گرتے ہوئے تعلیمی معیار کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک قوم ایک نصاب عمران خان نے اپنی حکومت میں روشناس کروایا۔ اس نصاب پر مشتمل کتابوں میں عمران خان نے اپنی تصاویر بھی شائع کروائیں اور پہلے سے بھرے ہوئے مذہبی ابواب میں مزید مذہبی چورن ڈالا۔ تعلیم جیسا محکمہ بھی سیاسیات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ حالانکہ سیاسیات کی اقداریں نہ ہی پر خلوص ہوتی ہیں اور نہ ہی دائمی بلکہ یہ وقتی، عارضی اور مطلب پرستی کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ ایسی سیاسی قدریں نونہالوں کے اذہان کو زہر آلود کرتی ہیں اور ان کے اذہان کو ورغلانے کا ایک طریقہ واردات ہوتا ہے۔

عمران خان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشانات تو اگرچہ بیشمار ہیں لیکن ان میں ایک اضافہ یہ بھی کہ ایک قوم ایک نصاب کیسے ممکن جب کہ ایک قوم بنی ہی نہیں؟ اردو زبان کو بھی ایک قوم کے لیے ہی تھوپا گیا تھا مگر آج دیکھ لیں ایک قوم تو دور کی بات، چار قومیں مزید ایک دوسرے سے دور ہوتی جا رہی رہی ہیں اور سب اپنا اپنا "خالصتان" کی خواہشمند ہیں۔ ایک قوم کے لیے زبان یا ایک نصاب نہیں اپنایا جاتا بلکہ تمام علاقائی قوموں کو ملکی سطح پر یکساں اہمیت و ترویج و ترقی دی جاتی ہے۔ جبکہ ایسا آج تک نہیں ہوا کیونکہ مٹھی بھر نان سیکٹر ایکٹرز کو یہ برداشت نہیں کہ کرائے کے مکان پر قبضہ کو چھوڑ کر مالک کے حوالے کر دیا جائے۔

ہمارے زمانہ طالب علمی میں موبائل ڈیوائسز نہیں ہوتی تھیں۔ صرف ٹی وی ہوتا تھا جو کہ شام چار بجے سے رات گیارہ بجے تک چلتا تھا اور زیادہ تر وقت ٹی وی ڈرامے خصوصاً راہیں، عینک والا جن، اور بھارتی پنجابی ٹی وی کا ایک ڈرامہ "ویرا تے کُڈھا" پر صَرف ہوتا تھا اور یا پھر چھت پر لگے ٹی وی انٹینا کو سیدھا کرنے، گھمانے تاکہ سگنل زیادہ سے زیادہ صاف مل جائیں، بار بار گیڑے مارنے میں لگ جاتا تھا۔

برعکس اس کے، آج کے بچے موبائل گیمز اور وڈیوز کے محاصرے میں قید ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بچوں کو نفسیاتی طور پر اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے۔ اگر موبائل بچوں کو نہ دیا جائے تو ان کے باغی ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین شش و پنج میں ہیں کہ سوشل میڈیا کے چُنگل سے بچوں کو کیسے باہر نکالا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس کا معتدل حل یہی ہے کہ یا توموبائل کی لَت میں بچوں کو پڑنے ہی نہ دیا جائے اور یا پھر پہلے بچوں کو سوشل میڈیا ترک کرنے کے لیے ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر باقاعدہ تیار کیا جائے تاکہ باغی ہونے کے امکان کا قلع قمع ہو سکے۔ بصورت دیگر لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ گویا بقول شاعر "لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام"۔

ذریعہ تعلیم اور طریق تعلیم بھی بچوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔ مادری اور علاقائی زبانوں میں بچوں کو تعلیم مہیا کی جائے تو ان میں تعلیم کے لیے دلچسپی پیدا ہونا ایک یقینی امر ہے۔ انگریزی، عربی اور اردو کئی زبانوں کی وجہ سے بچے اپنی توجہ متن پر دینے سے قاصر رہتے ہیں اور زبانوں کی گرہوں کو سلجھانے میں ہی زیادہ تر وقت صرف کر دیتے ہیں جس سے ان میں تعلیم سے دوری کے جذبات پرورش پانا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہماری دانست میں سقراطی طریق تعلیم کو اپنا کر بچوں میں تعلیم کے لیے دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سقراط نہ تقریر کرتا تھا نہ درس دیتا تھا اور نہ ہی پند و نصائح و اعظ۔ وہ صرف مکالموں پر انحصار کرتا تھا۔ سقراطی تعلیم میں استاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ وہ پڑھانے جا رہا ہے اس بارے اس کو کچھ اتا پتا نہیں ہے یا معمولی سے معلومات کا حامل ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ طالب علموں سے سولات کے ذریعے معلومات اخذ کرتا ہے۔ اس طریق تعلیم کے مطابق علم دراصل طالب علم کے اندر موجود ہوتا ہے لیکن کسی ماہر کی مدد کے بغیر اندر تک رسائی ممکن نہیں۔ گویا سوالات و جوابات کا طریق تعلیم اپنانے سے تعلیمی معیار میں حقیقی بہتری لائی جا سکتی ہے۔

کامیاب طالب علموں کی ناکامیوں کے قصے جب سوشل میڈیا پر آتے ہیں، اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں تو بچے کیونکہ ہوتے ہیں کچے، ان قصوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر کیا کرنا جب انتیس گولڈ میڈل جیتنے والے طالب علم ڈاکٹر محمد ولید کو کسی ھسپتال میں ہاؤس جاب تک نہیں مل سکی۔ بد دلی کی ابتدا یہی سے ہوتی ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ بچوں کے تعلیمی معاملات بارے والدین پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حصول تعلیم کی طرف کس طرح راغب کر سکتے ہیں، کیسے سوشل میڈیا اور موبائل سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں، کیسے نصاب کو پڑھنے کی طرف بچوں کو مائل کر سکتے ہیں۔ حکومت اور محکمہ تعلیم سے کوئی امید نہیں رکھی جانی چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ کیونکہ بیوروکریسی کے لیے یہ بچے ان کے نہیں بلکہ مترئے بچے ہیں۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ گوریلا جنگجو کی طرح نصاب، مواد، طریق تعلیم، طریق امتحان۔۔ کا مقابلہ کرتے ہوئے میدان میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیمی کامیابیاں سمیٹنے کی طرف راغب کریں تاکہ ان کے بچے ایک بہتر اور خوشحال مستقبل پانے میں سرخرو ہو سکیں۔

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf