Blog Aap Ke Liye, Intekhab Hamara
بلاگ آپ کے، انتخاب ہمارا
ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام پر جب بھی وقت ملے بلاگرز کے بلاگ پڑھتا ہوں۔ البتہ ذاتی طور پر اخباری کالمز کو میں زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اخبارات میں لکھنا بہت مشکل کام ہے جو ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے قلم بیچنے کی طرف توجہ گھوم جاتی ہے کہ تحریر مصنف کی اپنی نہیں بلکہ اخباری مالکان کی پالیسی کے مطابق ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری کالمز پراپیگنڈہ پر مشمتل ہوتے ہیں۔ جبکہ بلاگرز کے بلاگز سراسر ان کی اپنی تخلیق، اپنی سوچ، اپنے خیالات، اپنے تجربے اور مشاہدے سے لبریز ہوتے ہیں۔ گویا حقیقی خالص پن بلاگز میں ہوتا ہے نہ کہ کالموں میں۔
بلاگرز کے بلاگز جو یہاں شائع ہوتے ہیں، بہت اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں اور ہر قسم کی معلومات سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ آج میں ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام پر شائع شدہ بلاگز میں سے اپنی پسند کے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ یہ محض چند سطری اقتباسات ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنے اندر گہرائی سمیٹے ہوئے ہیں جن کے بل بوتے پر پوری ایک کتاب تک لکھی جا سکتی ہے، اختصاریت میں بھرپور جامعیت پوشیدہ ہے۔
***
دعا ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی محمد بن سلمان کی طرح روشن خیال رہنما آئے جو دہائیوں پر پھیلی اس انتہا پسندی کو لگام دے۔ معیشت کو صحیح سمت میں لے جائے۔ امن و امان کی ابتر صورتحال کو بحال کرے اور پسی ہوئی عوام کو کچھ سکون ملے۔ (سعودی عرب کا ویژن 2030 اور پاکستان از انور احمد، تاریخ اشاعت: بیس اگست سن بیس سو چوبیس)
***
کسی مذہبی یا قومی یا سیاسی نظریے کی تبلیغ و تحفظ، کسی مذہبی عمارت کی تعمیر یا اجتماع کا انتظام، کسی بھی قسم کی عبادت، مذہبی لٹریچر، رشتے داروں اور دوستوں کے سوا کسی قسم کی چیریٹی، یہ سب لاحاصل کام ہیں۔ ان سے مفاد پرستوں کا الو سیدھا ہوسکتا ہے، عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ (زندگی کا مقصد از مبشر علی زیدی۔ تاریخ اشاعت: تین اگست سن بیس سو چوبیس)
***
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کے عام شہری کا ریاستی وسائل میں کوئی حصہ نہیں ریاست گنے کا رس نکالنے والی ایسی مشین بن چکی ہے جس میں اب شہری کو دوہراکرکے ڈالنے کا تجربہ ہورہا ہے۔ یہاں ہر حکومت کہتی ہے کہ پچھلی حکومت نے تباہ کردیا۔ معاف کیجئے گا ساری حکومتوں اور اشرافیہ نے تباہی میں حصہ بقدرے جُثہ ڈالا اور ڈال رہے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ حالات قربانی مانگتے ہیں تو اس قربانی کا آغاز اشرافیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان، وفاقی و صوبائی کابینائوں سے کیجئے تاکہ ہم (عوام) بھی تو جان پائیں انہیں ہم سے کتنی محبت ہے۔ (یہ ریاست ہے یا گنے کا رس نکالنے والی مشین؟ از حیدر جاوید سید، تاریخ اشاعت: دس جولائی سن بیس سو چوبیس)
***
پاکستان میں مردوں کے مظالم کے بارے میں اتنا لکھا اور پڑھایا جارہا ہے کہ لگ رہا ہے کہ ہر دوسرا مرد وحشی النسل اور چنگیز خان کی نسل سے ہے اور شادی کے پہلے دن سے عورت کو لاتوں، گونسوں اور تھپڑوں پر رکھ لیتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس کے بارے میں کبھی لکھا ہی نہیں گیا۔ جناب عالیٰ! عورت جسمانی تشدد سے بڑھ کر جو تشدد کرتی ہے اس کے بارے میں قانون اور مورخ خاموش ہیں۔ اگر اس تشدد کے بارے میں لکھا جانے لگے اور ڈرامے فلمیں بننے لگ جائیں تو مرد اس کرہ ارض کی مظلوم ترین مخلوق قرار دی جائے گی۔ جگہ جگہ جلسے جلوس ہونے شروع ہوجائیں کہ مرد کوبچائیں۔ (زنانہ تشدد، از مبشر عزیز، تاریخ اشاعت: تیرہ جون سن بیس سو چوبیس)
***
اکثریت مذہب کے مطابق زندگی گزرانے کی فلاسفی لیے آخر تک چلی جاتی ہے۔ اچھی بات ہے مذہب مکمل فلاسفی ہے نظریہ ہے کسی نظریے پر یقین حوصلہ دیتا ہے اگر کہیں بکھر جائیں تو ہاتھ دے کر اوپر اٹھا لیتا ہے زندگی چلتی رہتی ہے۔ مسئلہ ان کا ہے جو پچیس سال کی عمر کو پہنچ کر خود کو کسی فلاسفی کے ساتھ اٹیچ نہیں کر پاتے۔ زندگی کا خرگوش ہر سمت سے آڑھے ترچھے دائروں میں گھوم پھر کر ایک جگہ ملتے رستوں کے ایک نشان پر بیٹھا ہے اس خرگوش کو رستوں کے جنگل سے گھمانا ہے کسی رستے پر بھٹک کر گم بھی ہونا ہے مگر کسی ایک رستے کے اختتام پر پڑی گاجر تک بھی پہنچانا ہے کہ جسے دیکھ کر تھکا ہوا خرگوش تھکن بھول جائے اور گمنام رستوں سے گزرنا اور بھٹکنا رائیگاں نہ جائے۔ (ہم اور فلاسفی از سندس جمیل، تاریخ اشاعت: تیرہ اگست سن بیس سو چوبیس)
***
میرے کئی بڑے بڑے رئٹائرڈ دوست افسران تو اس سلوک کی وجہ سے ڈئپریشن کا شکار ہو چکے ہیں کہ لوگ اب ان کو وہ اہمیت کیوں نہیں دیتے؟ کاش ان کو بتایا جا سکے کہ یہ حقے والے دوست تھے اور اب آپ کے پاس وہ حقہ نہیں رہا جو انہیں آپ کی جانب کھنچ رہا تھا۔ تنہائی یا اکیلا پن عجیب چیز ہے ہم سب بھی کبھی نہ کبھی اس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ آج دنیا بھر میں تنہائی بحث کا بڑا موضوع بن چکی ہے۔ تنہائی کا مطلب اکیلا پن محسوس کرنا نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے دوسرے آپ سے تعلق اور ربط میں کمی کردیں اور آپکو یہ احساس دلائیں کہ اب آپ ان کے کام کے نہیں رہے۔ حالانکہ کہ وہ لوگ جو اپنی بھرپور زندگی گزار چکے ہیں۔
ہماری توجہ اور وقت کے بہت زیادہ مستحق ہوتے ہیں کیونکہ ان کے حقے والے دوست اب ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے یہ انفرادی اور اجتماعی سماجی رویے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم میں خلوص، مروت، لحاظ، مدد کا جذبہ، نیکی کی خواہش، خدا کی رضا مندی اور انسانیت کا مقام سبھی کچھ حاصل کرنے کی تمنا ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب ہم صرف اپنے لیے جینے لگے ہیں۔ اپنے مفادات تک تعلق رکھتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر کبھی ہم اس مشکل میں ہوے اور پھر کسی ہم نفس انسان نے ہمارے ساتھ بھی یہ رویہ اختیار کیا۔ تو ہمارے دل پر کیا گزرے گی کیونکہ تنہائی اداسی کی وجہ بنتی ہے اور اداسی ڈیپریشن میں بدل جاتی ہے۔ (حقے والے دوست از جاوید ایاز خان، تاریخ اشاعت: دو مئی سن بیس سو چوبیس)