Balochistan Ke Khaime Mein Oont
بلوچستان کے خیمے میں اونٹ
بلوچستان نینشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے بلوچستان کے مسائل بارے اسمبلی میں بات نہ کرنے پر قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ اگر قومی اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل زیرِ بحث نہیں آسکتے تو اس میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اختر مینگل کے استعفیٰ کی ٹائم لائن بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ استعفیٰ اس وقت دیا گیا جب بلوچستان میں دو دہائیوں خصوصاً نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت یا قتل یا شہادت کے بعد پنجابی بولنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ میں یکدم تیزی آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اختر مینگل نے استعفیٰ دے کر بلوچستان پر اٹھتی انگلیوں کا رُخ موڑنے کی کوشش کی ہے۔
بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں تئیس پنجابیوں کو بسوں اور کوئلہ کے ٹرکوں سے اتار کر شناخت کرکے قتل کرنے کے سانحہ کے بعد پنجاب میں لوگوں کے جذبات بھی سخت بھڑک اٹھے ہیں جبکہ سوشل میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ بیگناہوں کے قتل سے بلوچوں کے خلاف ذہنی زمین ہموار ہو رہی ہے۔ پنجابی اور بلوچ کو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار لایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک کی سیاہ و سفید کی مالک نادیدہ قوتیں بلوچستان میں دہشتگردی کو غیر ملکی سازش قرار دیتی آ رہی ہیں۔
جس تیزی سے سی پیک اور گوادر بندرگاہ پایہ تکمیل کی طرف جا رہی ہے اسی تیزی سے بلوچ عوام کا خون بھی اُبل رہا ہے اور شاید ایک غیرت مند قوم کا خون ابلنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ جب ہر طرف سے در بند ہو جائیں، جب کوئی بات سننے کو تیار نہ ہو، جب کوئی داد رسی نہ ہو، جب قوم پرستی کو غداریت کی نظر سے دیکھا جائے، جب حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو بیرونی فنڈنگ میں دیکھا جائے اور آواز اٹھانے والوں کو غائب کر دیا جائے تو صبر کا پیمانہ چھلک جانا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ ایسے ہی معروضی حالات کسی قوم کودہشتگردی کی طرف، بی ایل اے کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد نشاندہی کرکے ہلاک کرنا سے یہ نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ بلوچ قوم پنجابیوں کے دوالے اُسی طرح ہوئے ہیں جس طرح سندھی، ایم کیو ایم کے دوالے ہوئے تھے۔
بلوچستان کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نفسوس پر مشتمل ہے۔ رقبے میں یہ سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ آبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ۔ بلوچستان کے سردار اور وڈیرے چند درجن ہیں۔ ان کو زمین کسی انگریز نے تحفہ میں نہیں دی تھی بلکہ صدیوں سے سرداروں کے پاس وراثتاً چلی آرہی ہے۔ معدنی ذخائر سے بلوچستان مالا مال ہے۔ گیس، کوئلہ، قیمتی پتھر اور تیل کے ذخائر سے بلوچستان بھرا پڑا ہے۔ اس قدر قیمتی خزانے ہونے کے باوجود بلوچ عوام کی معاشی حالت قابلِ رحم ہے۔ امن و امان کے قیام کے لیے جگہ جگہ ایف سی کی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ بلوچستان میں قائم سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر اور کمپنیوں میں ملازمین کی اکثریت غیر بلوچ ہے، بلوچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انہیں مطلوبہ تعلیم و تربیت کی پاداش میں نزدیک نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔
گوادر بندرگاہ اور سی پیک پر بلوچوں کو سخت تحفظات ہیں اور انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ جلد یا بدیر بلوچ قوم اپنے ہی دھرتی، اپنی ہی جنم بھومی میں اپنی عددی اکثریت کھو بیٹھے گی اور اقلیت میں شمار ہونے لگ جائے گی۔ بلوچوں کو اپنی معاشی، ثقافتی اور معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل کا شدت سے ادراک ہے جو کہ ان کے باشعور ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ذرا گہرائی میں جا کر د یکھیں تو بلوچستان کا مسئلہ بھی وہی ہے جو سندھیوں کا مہاجروں کے ساتھ تھا۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے دستیاب وسائل کم اور تقسیم ہوتے جاتے ہیں، وراثتی جائیداد سکڑتی جاتی ہے۔ زمین کم پڑ جاتی ہے اور گاؤں پھیلتا جاتا ہے اور بہت سے زرعی زمین کو رہائشی زمین میں بدل لیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سن اسی کی دہائی میں ہمارے گاؤں میں ایک چھپڑ بھی ہوتا تھا جو بہت ڈونگا تھا۔ شام کو ڈیرے سے گھر آنا تو راستے میں مجوں کو نہلانے کے لیے چھپڑ کا رخ کر لیتا تھا اور نہلانے کے بعد بھینسیں حویلی میں لے جایا کرتا تھا۔ آج اس چھپڑ کا نشان باقی نہیں رہا۔ چھپڑ کو پُور کر گھر بنا لیے گئے ہیں۔
ایسی صورتحال بلوچستان میں درپیش نہیں ہے کیونکہ آبادی کے تناسب سے بلوچستان کی بیشمار جگہ موجود ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ بلوچستان کی زمین بلوچوں کی بجائے دوسری قوموں کے ہاتھ میں جا رہی ہے، اسٹیبلشمینٹ کنٹرول لے رہی ہے۔ جگہ جگہ پولیس اور ایف سی چوکیوں نے اس تاثر میں حقیقت کا رنگ بھرا ہوا ہے۔ بلوچستان عوامی نمائندے بھی بے بس ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی بلوچستان کے ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ بھی اسٹیبلشمینٹ کا ایک اور نام بن کر رہ گیا ہے۔ سیاسی اقتدار اگرچہ بلوچوں کی ملتا رہا ہے مگر پھر بھی بلوچستان وہیں کا وہیں ہے جہاں پر چار دہائیاں قبل تھا۔ اس سے نظر آتا ہے کہ سیاسی اقتدار سے بلوچوں کو بلوچستان نوازنا بھی ایک لالی پاپ محض ہے کہ باگیں کہیں اورسے ہلائی جارہی ہوتی ہیں۔
بعض مبصرین بلوچستان کی ترقی کے اعداد و شمار بڑے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ جبکہ مادی ترقی ہی سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ عوام کے دلوں تک رسائی ضروری ہوتی ہے اور یہ رسائی تب تک ممکن نہیں ہوگی جب تک کہ بلوچستان کے اصل مسئلہ کو انسانی اور اخلاقی ہمدردی کے تحت حل نہ کیا جائے گا۔ بلوچوں کو ان کے معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقوق دیئے بغیر بلوچستان میں امن کی فاختہ پر نہیں مار سکتی۔ بلوچستان کے خیمے میں جو اونٹ گھسا ہوا ہے، اسے باہر نکالنا ہوگا۔ آج اکیسویں صدی میں ڈنڈے کے زور پر کوئی تحریک نہیں دبائی جاسکتی بلکہ اس سے تحریک مزید بھڑکتی ہے۔ بقول حبیب جالب:
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو