Tabdeeli
تبدیلی
بہت عرصہ سے ایک خواہش تھی، اپنے حالات پر لکھوں کبھی وقت نہیں ملتا اور کبھی الفاظ، آخر کار سمجھ آ ئی کہ کام کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو اس پر وقت اور محنت دونوں چاہیئے ہوتے ہیں۔ تو پھر لکھنا شروع کیا دعا ہے کہ اللہ پاک لکھنے کی توفیق دے اور وہ لکھوں جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ہر عنوان نفرت سے پاک ہو۔
ہماری ملکی صورت حال بہت پریشان کن ہے سب جانتے ہیں کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں، ہماری حالت کی ایک بڑی وجہ کرپشن بتائی جاتی ہے اور اس کے زمہ داران سیاست دان اور اور حکمران ٹھرائے جاتے ہیں۔ نظام چلانے والے نہں جانتے کہ کیا کرنا ہے جو اسمبلیوں میں گالم گلوچ کرتے ہیں وہ کیا نظام بدلیں گے اور یہ کافی حد تک صحیح ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں کیوں کہ سب لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔
لیکن اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں نا اہلی بے شعوری اور جہالت اور غیر ملکی مداخلت اور عوامی کرپشن شامل ہے۔ یہاں مجھے یہ لکھتے ہوے یہ تکلیف ہو رہی ہے اور آپ کو پڑھ کر ہوگی کہ ہم سب کرپٹ ہیں، آپ مجھے ایک ایسا ادارہ بتا دیں جہاں رشوت نہ لی جاتی ہو، جہاں میرٹ پر کام ہوتا ہو۔ ہر ادارے میں کوئی نہ کوئی کسی نکر میں ہوتا ہے جو اس بےہودہ اورحرام خوری کے کام میں مگن ہوتا ہے اور وہ اپنے اس فن پر بجائے شرمندگی کے بے شر می اور ڈھٹائی کے ساتھ فخر کرتا ہے۔
آپ سرکاری اداروں سے نکل کر پرایئویٹ سیکٹر چلے جائیں آپ کو بہت بڑے کرپٹ اور حرام خور ملیں گے جو بعض دفعہ پورے ادارے کو برباد کر کے نکل جاتے ہیں۔ وہ نااہل ہوتے ہیں یا کرپٹ اگر آپ معاشرہ کا جائزہ لیں تو لوگ دوسروں کے گھروں کو برباد کرنے میں مگن ہیں۔ لوگ بڑے شوق سے دوسروں کو برباد کرنے کی کہانی سناتے نظر آئیں گے۔
اب آپ بازاروں کا رخ کریں آپ کو مقرر کردہ نرخ پر کچھ نہیں ملے گا بازار لوٹ مار کے بازار بنے ہوے ہیں لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے میں مگن ہیں اور کمال کی بات یہ ہے لوٹ مار کے بعد کہتے ہیں کہ یہ سب کرنا مجبوری ہے۔ اگر ایک مجبور انسان دوسرے مجبور انسان کو لوٹنا شروع کرے گا تو قیامت ہی آئے گی اور قیامت سا ماحول بنا ہوا ہے۔ ہم اپنے آپ کو لوٹ رہے ہیں اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں اپنے آج کیلئے اپنا کل داو پر لگا رہے ہیں۔
ہم آنے والی نسلوں کیلئے بربادی اور بے راہ روی کا رواج چھوڑ کر جا رہے ہیں، جو ماحول ہمیں ورثے میں ملا ہم اس ماحول کو مزید اگلی نسلوں میں جانے سے روکیں۔ بازاروں اور شہروں سے نکلو تو گاؤں اور دیہاتوں میں بہت سارے زمین کے تنازعے مقابلے بازی اور سرداری نظام جیسے مسائل ہیں جنگل کا نظام ہے جس میں اسلامی صفات تو دور اخلاقیات بھی بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کا نظام ہوگا تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی سکون سے رہ سکے۔
نظام ٹھیک کرنے کیلئے ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک راستہ وہ ہے جو ہماری پیدائش کا مقصد ہے اسلام کا راستہ، ایک سچے مسلمان میں یہ برائیاں نہیں ہو سکتی، ایک سچا مسلمان کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کر سکتا پاکستان بھی اسی مقصد کیلئے وجود میں آیا تھا کہ ایک ایسی دنیا جہاں ہم اپنی زندگی اسلام کے طریقے کے مطابق گزاریں، لیکن ہم یہ تک بھول گئے کہ ہم مسلمان ہیں پاکستانی ہونا تو بعد کی بات ہے۔
اگر یہ سوچ بھی زندہ ہوجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا دوسرا راستہ ہے قانون پر عملدرآمد اس کیلئے پھر قانون پر عملدرآمد کرنا پڑے گا پھر اس پر تو سب عمل کریں گے لیکن ہمارا قانون بھی ایسا ہے جہاں سے انصاف خریدنا پڑتا ہے، مفت میں انصاف بھی نہیں ملتا۔ وکیل کی فیس ادا کرو اور وہ بھی رسک پر آپ مقدمہ ہار بھی سکتے ہو ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں اپنے اندر قربانی کا جزبہ پیدا کریں جانوروں کی طرح چھیننے کی بجائے دوسروں کی مدد کریں چھین کر دھوکے سے چوری سے کھانے اور کمانے سے بہتر ہے ہم لوگ ویسے ہی مر جائیں۔
اے طائراے لاہوتی ایسے رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ایک سبزی فروش گندی سبزی دھوکے سے بیچنا بند کردے، تاجر زخیرہ اندوزی بند کر دیں، قاضی بغیر وکیل کے مقدمہ سنے، پولیس ناجائز مقدمے درج نہ کرے، اسمبلیوں میں منافقت کی سیاست کی بجائے ملک کی بہتری کے فیصلے کیئے جائیں، ذاتی مفاد پرستی کیلئے قیمت لگتی ہے، بہت گرا ہوا سودا ہوتا ہے خود کا ضمیر، ایمان اور لوگوں کا حق بیچا جاتا ہے جانوروں میں حلال جانوروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے جو حلال ہے جانوروں کو زبان ملتی تو وہ بھی منع کرتے کہ مت بیچو ہمیں۔ طوائف صرف اپنا جسم بیچتی ہے، یہ جانوروں اور طوائف سے بھی اگلی نسل ہے یہ لوگوں کا حق نا جائز استعمال کرتے ہیں اور پھر خود اس کے ساتھ بک جاتے ہیں۔
الغرض عوام اور حکمران سب کو بدلنے کی ضرورت ہے تب آئے گی تبدیلی۔ قائداعظم نے پاکستان بنا دیا ہم اس کو سنوار نہ پائے ہم آج بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر اپنے خدا کے حضور سچے دل سے طوبہ کر کے خود کو بدلیں تو، علامہ اقبال کے جواب شکوہ کے یہ اشعار آج بھی ہمیں تبدیلی کا راز بتا رہے ہیں
ہم تو مائل باکرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہ روے منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہراے قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں