Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb Ullah Khan
  4. Pehla Qadam

Pehla Qadam

پہلا قدم

یہ مت پوچھ کہ میرے صبر کی وسعت کہاں تک ہے

ستا کر دیکھ لے ظالم تیری طاقت جہاں تک ہے

صتم گر کرم کی امیدیں ہوں گی جنہیں ہوں گی

ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہاں تک ہے

ظلم سہنے کے باوجود ہم نے اس فارمولے پر عمل کرتے ہوۓ ہر دفعہ آپ سے وفا کی کہ شاید اس بار چمن میں بہار آئے اور ہر دفعہ مایوسی ہوئی۔ پھر کسی بڑے سے یہ سن کر پھر سے امید باندھ لی کہ مایوسی گناہ ہے اور پھر سے آپ کے ساتھ ہو لیے، شائد پھر سے ظلم سہنے کیلئے یا پھر کوئی امید وابستہ ہوگئی۔

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

لیکن اب تھک گئے ہیں صاحب آپ کے وعدوں سے، امید نام کے لاروں سے اور شاید سمجھدار ہو گئے ہیں۔ وہ لندن سے آئے تھے برصغیر، لوٹنے کے بعد چلے گئے۔ وہ غیر تھے صاحب ہم مذہب بھی نہیں تھے، آپ تو اپنے تھے مسلمان بھی ہیں ایک پرچم کے سائے تلے آپ اور ہم پیدا ہوۓ، پلے بڑھے۔ آپ نے ہی ہمیں لوٹنا شروع کر دیا اور آپ لوٹ کر لندن چلے گئے تو فرق کیا ہوا آپ میں اور ان میں؟

فرق آپ کو پڑے گا صاحب کیوں کہ آپ جن لٹیروں کے پاس گئے وہ ان کا گھر ہے، آپ جو کچھ لوٹ کر گئے ہو وہ ان کو فائدہ دے رہا ہے۔ آپ کو سمجھ نہیں آ رہی وہ آپ کو بلا کر لوٹ رہے ہیں۔ آپ مہرے ہو جناب، لٹیرے چین کی نیند نہیں سوتے، ان کا خاندان کا نظام تک تباہ ہو چکا ہے ان کو فرق نہں پڑتا۔ انہیں عادت ہے ایسے رہنے کی، تمہاری نسلیں برباد ہو جائیں گی۔ وہ پاکستان نہیں ہے وہ لوٹتے ہیں لٹنے نہیں دیتے خود کو، ہر برے کام اور ظلم کا انجام ہوتا ہے۔ انجام قریب ہے انتظار کرو کیوں کہ

جزا سزا حشر پہ موقوف نہیں زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔

اقتدار اور عہدہ پر ہمیشہ اہل لوگ بٹھائے جاتے نااہل کیلئے بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے والی مثال صادر آتی ہے۔ نا اہل مسلط کیے گیے یا پھر ہماری غلطی سے آ گئے لیکن آنے کے بعد جو تباہی کر گئے یا کر رہے ہیں اس کا صدباب کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ حرص و ہوس کے ذہنی مریضوں کو تباہ ہونا ہے ایک دن، افسوس کہ بڑے نقصان کے بعد۔

ہمیں ایک ایسی مہذب قوم بننا ہے جس کی پوری دنیا مثال دے۔ بہت برا لگتا ہے جب غیر ملکی میڈیا پر اپنی کرپشن کی کہانی سنتے ہیں۔ ہماری ذلت ہمارے اور ہمارے اپنوں کی حرکتوں کا نتیجہ ہے، چلو اپنی اخلاقیات کو ٹھیک کرتے ہیں اپنی اساس کی طرف واپس آتے ہیں۔ خود کے جنم کا مقصد سمجھتے ہیں اپنے ربّ کو رازی کرتے ہیں۔ اس کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا تہیہ کرتے ہیں۔

دوسروں کی تکلیف محسوس کرتے ہیں لوگوں کا سہارا بنتے ہیں ہم جہاں بھی ہیں جس محکمہ میں ہیں یا اپنا خود کا کاروبار ہے بس ایسا کام نہیں کرنا جو قانون اور اخلاقیات کے مطابق درست نہ ہو اور سب سے بڑا جج ہوتا ہے آپ کا ضمیر، بس جس کام سے ضمیر مطمئن نہ ہو چھوڑ دو اور گناہ کی تعریف بھی کچھ اس طرح ہے "ہر وہ کام گناہ ہے جس سے تیرے دل میں کھٹکا پیدا ہو کہیں لوگ اس سے آگاہ نہ ہو جائیں"۔

چند لوگ ہیں جو سارے ماحول کو خراب کیے ہوۓ ہیں۔ سارے افسران بھی ایسے نہیں ہوتے بہت ایماندار لوگ بھی موجود ہیں، ایمان دار سیاست دان بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات اب بھی قابو میں ہیں۔ ہمیں بزدل نہیں طاقت ور قوم بننا ہے۔ بہت بحث ہوگئی کرپشن کی کہانی پر، بہت رو لیا، بہت سہ لیا، بہت پروگرام کر لیے۔ اگر آپ کو کسی حرام خور سرکاری افسر سے کام پڑے اور وہ اپنا دام مانگے تو اس بکاؤ مال کو آرام سے سمجھاؤ اگر آپ میں کچھ ہمت ہے تو۔

کیوں کہ برائی کو پہلے ہاتھ سے روکنا ہوتا ہے اگر آپ ایسا نہں کر سکتے تو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں کمپلین درج کرواؤ۔ اگر اس سے بھی ڈر لگتا ہے تو ایک اور طریقہ ہے سوشل میڈیا پر لے آؤ۔ اس کمپین کے بعد بہت ماحول بدلے گا نیچے سے اوپر، اوپر سے اور اوپر تسلسل کے ساتھ بہت کم وقت میں ایک بڑا چینج دکھائی دے گا وہ اصل تبدیلی ہوگی۔ اسی طرح کھاؤ اور بکاؤ سیاست دانوں کو بھی ایکسپوز کر کے عبرت کا نشان بناؤ۔

وہ تبدیلی جس کی ہم اوروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور ہم اسی سوچ میں ہوتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا جو اکیلا ہی سارے نظام کو بدلے گا جو بہت مشکل ہے۔ ہماری تھوڑی سی ہمت سے بڑی تبدیلی، لیکن شروع اپنی ذات سے کرنا ہے پہلے خود کو ٹھیک اور صاف کرنا ہے، خود کے گریبان میں جھاکنا ہے اور توبہ اور استغفار کے بعد آگے بڑھنا ہے۔ اللہ سے دعا کرنی ہے کہ وہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے تحمل اور مستقل مزاجی سے تکبر اور فسادی سوچ کو سائیڈ پر رکھ کے، ایسا نہ ہو آپ کسی کو بدلنے نکلو اور خود ہی قانون کے مجرم بن کے لوٹو، پھر ساری زندگی کیلئے نیوٹل بن کر رہنا پڑ جائے اور پھر گالیاں دیتے رہو۔

تیری تبدیلی کی ایسی کی تیسی۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad