Laparwahi Ya Kamzori
لا پرواہی یا کمزوری
دفعہ 144 کا نفاظ عوام کی حفاظت کے لیئے کیا گیا اور اس کی ہی آڑ میں مظلوم انسان کی جان لی گئی اور اسے حادثہ بنا دیا گیا جب کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ڈاکٹر اس کی وضاحت دے چکے تھے اگر ریاست اور ریاستی ادارے واقع عوام کی حفاظت اور امن امان کا خیال رکھتے ہیں تو ابھی تک قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ مرنے والا معزور انسان تو نہیں تھا پتہ نہیں کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والے ذہنی مریض نہیں جانتے تھے وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اتنی شدت سے تڑپا تڑپا کر مارنا تو کوئی غیروں سے بھی نہیں کرتا جتنی تکلیف کے ساتھ حفاظت کرنے کے لئے آئے ہوئے لوگوں نے جس کی حفاظت کرنا تھی اسے ہی مار دیا۔
ہمارے ہاتھ اگر کوئی دشمن ملک کا جاسوس آئے یا گرا ہوا پائلٹ تب تو ہم امن و امان سے اسے واپس گھر بھیج دیتے ہیں اور ہیومن رائٹس کا خیال کرتے ہیں لیکن گھر میں جانور بن جاتے ہیں۔ ہم اتنے گرے ہوئے جانور ہیں جو اپنی ہی فیملی کے لوگوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں جانور بھی ایسا نہیں کرتے شیر کبھی بھی شیر کو نہیں مارتا کتا کبھی بھی کتے کو نہیں مارتا ہم نہ شیر ہیں نہ کتے ہیں، ہم انسان ہیں انسان۔ لیکن ایسی حرکت کرنے کے بعد نہ ہم انسان رہ جاتے نہ ہی جانور بلکہ جانوروں سے بھی نچلے درجے پر چلے جاتے ہیں۔
اس قتل کو حادثہ بنا دیا گیا اور اس کی ہی آڑ میں سیاست سیاست کھیلی گئی کب تک جانوروں کے جیسی درندگی کرو گے ایک دن تو سب نے مر جانا ہے اپنی پشتوں میں دیکھو شائد کسی کا دادا زندہ ہو باقی سب مر چکے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان مر جاتے ہیں تو پھر کس لیے اپنے گناہ کے پلڑے بھاری کر رہے ہو یا تو تمہیں خدا پر شک ہے کہ جو مرضی کرو کچھ نہیں ہوگا وہ مہلت دے رہا ہے اور ہم گھمنڈ کر رہے ہیں۔
ایک چھوٹا سا اقتدار چند دنوں یا سالوں کے لیے ہاتھ آیا اور ہم بن گئے یزید۔ یزید نے بھی ایسا ہی کیا تھا آج تک لعنتی ہے نسل بھی ختم ہوگئی اس کی، خدا پر یقین والے یقین کرتے ہیں کہ وہ اس کی سزا پا رہا ہوگا۔ قسم کھا کر جو آئے کہ ملک کی حفاظت کروں گا اور حفاظت کی بجائے لوٹنا اور مارنا شروع کر دے تو ایسا بندہ ہی سب سے بڑا غدار ہوگا۔ قسم کھاتے ہو ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کی اور وفادار بنتے ہو لوگوں کے یا تو بزدل ہو یا غلام ہو اگر تم آزاد ہوتے تو آزاد فیصلے کرتے ادھر ظلم ہو ادھر سزا پھر دیکھو کیسے کوئی ظالم باقی رہ پائے گا۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ چند لوگوں کی خاطر کوئی کیسے اتنی قانون شکنی اور آئین شکنی کر سکتا ہے؟ بڑے اداروں کے بڑے سربراہ بڑی سوچ رکھتے ہیں وہ کیوں خاموش تماشائی ہیں کس بات کا ڈر ہے کہ جنگل کے نظام کو سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ پہلے دہشت گردی تھی پھر مہنگائی آئی اب سرعام ظلم شروع ہوگیا ہے۔ آخر یہ کیوں ہونے دے رہے ہیں ویسے تو ہم بہت بڑے دعوے کرتے ہیں پھر ہم کیوں سالوں سے مجبور نظر آتے ہیں کہ جیسے ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ اب تو باہر سے طعنے آنے شروع ہوگئے ہیں ہم سے کچھ نہیں سنبھالا جاتا۔
جب گھر کی جنگ ختم ہوگی جب ہم ہوش میں آئیں گے، جب ہم انا کی خاطر انارگی بند کریں گے، جب اداروں میں ایماندار اور بہادر آئیں گے جو تحمل اور بہادری کے ساتھ ظالموں کو نظام سے نہ صرف نکالیں گے بلکہ ان کے گناہوں کی سزا بھی دیں گے تب امن ہوگا تب انصاف ہوگا۔ جب ایک انسان کیلے نہیں، ادارے کیلئے نہیں بلکہ ملک اور قوم کیلئے اور خدا کی رضا کیلئے فیصلے اور احکام ہر ادارے سے آنا شروع ہونگے تب امن امان ہوگا۔