Himmat Dikha
ہمت دکھا
ہمارے تعلیمی نظام کی ابتداء میں ایک سکول کا نظام تعلیم ہے ایک مدرسہ کا، سکول کے نظام میں میٹرک لیول پر جا کے دو گروپ بنتے ہیں سائنس اور آرٹس۔ سائنس گروپ کے بچے ذہین ہوتے ہیں وہ سنجیدہ ہوتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کیے بغیر اپنی تعلیم پر دھیان دیتے ہیں اور کچھ نیا سیکھنے میں مگن رہتے ہیں۔ زیادہ دوست نہیں بناتے فضول بحث مباحثے میں نہیں پڑتے لڑائی جھگڑے سے کوسوں میل دور رہتے ہیں۔
یہ بچے ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اور بہت بڑا اثاثہ بنتے ہیں۔ سائنس گروپ کے یہ ہونہار آگے مزید گروپوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں دو بڑے گروپ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں۔ ایک گروپ انجینئر بنتا ہے اس کی بھی فردر تقسیم ہے انجینئر کوئی سا بھی ہو دن رات کام پے لگا ہوتا ہے وہ نت نئے پروجیکٹ کر کے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوتا ہے۔
دوسرا گروپ ڈاکٹر بنتا ہے۔ ڈاکٹر لوگوں کی زندگی بچانے میں مصروف ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے وہ لوگوں کو بیماری اور مصیبت سے نکال ان کی مدد کرتے ہیں تاکہ لوگ اپنی بقیہ زندگی سکون سے گزار سکیں۔ وہ یہ سب کر کے دل سے دعا لیتے ہیں اور آخری سانسوں تک یہ کارخیر انجام دیتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر اور انجینئر میں بہت ہی تھوڑے لوگ بھٹکے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس آرٹس گروپ میں وہ بچے جاتے ہیں جو اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے یا ان کا دماغ ہوتا ہی نہیں ہے ان کے بہت سے دوست ہوتے ہیں یہ گروپس میں رہتے ہیں، لڑائی جھگڑے میں آگے ہوتے ہیں، لڑکیوں کو تنگ کرنا، نشے کرنا، آوارہ گھومنا، گھر دیر سے جانا، گھر جا کر گھر والوں کو تنگ کرنا، فضول خرچیاں کرنا، باپ کے پیسے کو حرام کا مال سمجھ کر اڑانا، باپ کو ہی کچھ نہ کرنے کے طعنے دینا، محلہ کے لوگوں کو تنگ کرنا۔
اس گروپ کے بچے بڑے ہو کر وکیل، سیاستدان اور ہمارے حکمران بنتے ہیں اور کچھ، کچھ بھی نہیں بنتے۔ جن لوگوں کو بچپن سے عیاشی اور بدمعاشی کی عادت ہو اور دماغ سرے سے کام ہی نہ کرتا ہو بدقسمتی سے ہمارہ سارا انتظامی کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اب جس بندے کی تربیت ہی نہیں ہو پائی جو خود کو اچھائی پر لانے کیلے رازی ہی نہیں، جسے یہ لگتا ہو یہ سارے شریف بزدل اور بیوقوف ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں لوگوں کی نفسیات اور احساسات سے کھیل کر جو خوش ہوتا ہو جو انسانی جسم میں ایک مکمل شیطان بن چکا ہو۔
لوگوں کی آہ و بکا، مہنگائی کا رونا، ملک کو نہ لوٹنے کی واعض و نصیحت اسے اور طاقت ور بناتی ہے۔ وہ سوچتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ لوگ کمزور ہونے لگے ہیں وہ اب اس کے ہاتھ میں ہیں وہ اور مضبوطی سے موقع کو غنیمت جان کو لوٹ مار شروع کر دیتا ہے۔ اخراجات بڑھتے ہیں اس کی عیاشوں سے اور ملک کے خزانے میں کمی آتی ہے روپے کی قدر کم ہوتی ہے اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے یہ لوٹنے والا صرف ایک ہوتا تو کچھ نہیں ہوتا یہ بچپن کی طرح اب بھی گروپس میں ہیں۔
جہاں لٹیرے ہی لٹہرے ہوں پھر کرنسی بھی گرے گی مہنگائی بھی ہوگی۔ جب تک حرام خوری بند نہیں ہوگی تب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ ہمت کر کے بڑے فیصلے کرو، اپنے پیسے اور سرمایہ ملکی خزانے میں جمع کراؤ۔ 500 دیہاڑی والے سے ٹیکس لینے کی بجائے آپ لوگوں کے ملک کے وفادار لٹیرے اہلکار ایم این اے، ایم پی اے اپنے خزانے ملک کیلئے وقف کریں اور اپنی مکمل سیلری اور اس سال کے ترقیاتی بجٹ کے پیسے جو بجٹ صرف کاغذوں میں ہی ظاہر ہو نگے وہ واپس جمع کروائیں بس ان کی پرفارمنس چیک ہوگئی ہے پھر دیکھیں حقیقی تبدیلی اور خوشحالی۔
اس کے ساتھ تمام گریڈ16 سے اوپر کے تمام ملازمین وہ وفاق کے ہوں یا صوبے کے ان کی تنخواہیں 50 فیصد کم کر دیں، ان کے آفس کے فضول قسم کے تمام کئے گئے اخراجات واپس لیں یا کم از کم اب سے بند کر دیں۔ سود خور کاروباری طبقہ جو قانونی طریقے سے مجبور افراد کو لوٹنے میں سرگرم ہے سود کے ظلم کو بین کر کے ان کا پیسہ واپس لوٹائیں۔ غریب بہت زیادہ ہیں یہ لوگ بہت کم ہیں اتنے زیادہ لوگوں کو تکلیف دینے کی بجائے چند لوگ تھوڑی سی میانہ روی اختیار کر لیں تو بہت سارے لوگ نہ صرف تکلیف سے نکلیں گے بلکہ بہت سے خوشحال ہو جائیں گے۔
مجھے پتہ ہے ایسا ممکن نہیں ہے لیکن ناممکن جیسا نہیں ہے، تو ممکن نہیں ہے کیوں کہ آپ آرٹس گروپ ہو آپ نہیں بدلو گے۔ سائنس گروپ ہوتے تو رکتی ہوئی سانس کے مریض کے دل کو پھاڑ کے اس کی سانس بحال کر دیتے، آپ دل پھاڑتے ضرور ہو مہنگائی اور ٹیکس بڑھا کے پھر سائنس والے ہی دھڑکن کم کرتے ہیں جو تم بڑھاتے ہو۔
قربانی پر دس لاکھ روپے کا خوبصورت جانور خرید کر سیلفی بنانا چھوڑ کے سچے دل سے قربانی دو۔ اپنا خرچ نہ بھی کرو لوٹا ہوا لوٹا دو، 14 اگست کو جھنڈا گھر پر لگانا چھوڑ دو یا پھر اس کا حق ادا کرو۔ اپنے ضمیر کو آزاد کرو خود کی گری ہوئی سوچ سے نکالو خود کو، ہم زندہ قوم ہیں کا نعرہ لگانے سے پہلے خود کو زندہ کرو مردہ ضمیر زندہ کرو، زنگ آلود دل کو صاف کرو۔ سب کچھ ہو سکتا ہے اگر کجھ ہمت ہو تو۔
میں بھی آرٹس گروپ ہوں میں کہتا ہوں ہو سکتا ہے، لڑوں گا اس بار میں بھی الیکشن میں کیونکہ مجھے لڑنے کی عادت ہے میں آرٹس میں اس لیے تھا کیونکہ اخراجات کم ہونگے تو مہنگائی کم ہوگی آپ کی بھی قدر بڑھے گی ڈالر کی طرح ورنہ آپ گرو گے ہمارے روپے کی طرح، ہمت دکھا۔
اٹھ باندھ قمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے